تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

روہنگیا مسلمان او ر الحاقِ پاکستان

سید شہاب الدین شاہ
روہنگیا مسلمان او ر الحاقِ پاکستان
یہ مثال پوری دنیا میں شاید ہی کہیں مل سکے کہ محض مذہب کے نام پر کسی خطے یا ملک کی بنیاد رکھی جائے ماسوائے وطنِ عزیز پاکستان کے جس کا قیام جس کا مقصد صرف اور صر ف اسلام کے سنہری اصولوں کو قانونی اور قومی دھارے میں شامل کر کے مملکت خداداد کی اصل روح کو زندہ رکھنا تھا۔ الحمدللہ ہمارے آپ کے بزرگوں کی بے لوث اور انتھک محنتوں اور بے شمار قربانیوں کی وجہ سے آج مکمل آزادی کے ساتھ پاکستان میں اسلامی عبادات اور قانونی معاملات خوش اسلوبی سے طے پائے جا رہے ہیں، یہ بات شاید کم لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ جب تحریک پاکستان اپنے نقطۂ عروج کو چھورہی تھی اور یہ امکان واضح ہوگیا تھا کہ وہ وقت دور نہیں جب آزاد اسلامی مملکت کا قیام ہو کر رہے گا۔ ایسے میں دیگر ریاستوں کے ساتھ ساتھ ایک ریاست ارکان (جوکہ اب برماکا ایک صوبہ ہے) مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تھی۔ جہاں کے عمائدین نے یہ کوشش شروع کی کہ کس طرح پاکستان کے ساتھ الحاق ہوجائے لیکن شومئی قسمت سے بعض نادیدہ قوتوں نے یہ مبارک کوشش بارآور ثابت نہ ہونے دی ۔ چنانچہ برما کے بدھسٹ تمام ترریاستی اور جغرافیائی قدروں کو پامال کرتے ہوئے آزادریاست ارکان پر چڑھ دوڑے۔ پھر چشمِ فلک نے وہ نظارہ بھی دیکھا کہ اپنے د یس کے باسی اپنے ہی دیس میں بیگانے بنادیے گئے۔ اسلامی تعلیمات سے لے کر سماجی اور کاروباری زندگیوں میں کفر والحاد کا زہر گھول دیا گیا۔ جس میں مزید شدت ۱۹۶۲ء میں برما پر مارشل لاء کے نفاذ کی صورت میں پیدا ہوئی، مسلمان بچیوں کی آبرو ریزی ، نوجوانوں کو چن چن کر مارنے کا نہ ختم ہونے والا ہولناک سلسلہ شروع ہوا ۔ بربریت کی یہ لہر گذشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل جاری ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا اور مسندِ صدارت پر جنرل محمد ایوب متمکن تھے۔انھیں جب روہنگیا مسلمانوں پر بے انتہاہ ظلم وتشدد کی اطلاعات ملیں تو انھوں نے جرأت مندانہ اور واشگاف لفظوں میں برما کی بدھسٹ حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ کیا میں اپنی افواج کو حکم دے دوں کہ وہ رنگون میں پہنچ کر قابض ہوجائے؟
لہٰذاروہنگیا مسلمانوں پر جاری تشدد کی لہر صدر محمد ایوب کے دورِ حکومت میں کسی قدر تھمی رہی لیکن ایک توصدر ایوب کی معزولی اور دوسرا سقوطِ ڈھاکہ کا المناک حادثہ رونما ہوگیا جو دیگر مسلمانانِ پاکستان کے لیے کڑی آزمائش کا باعث بنا وہاں ارکان کے روہنگیا مسلمانوں کے لیے ہولناکیوں کا پیا مبر ثابت ہوا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد اپنے دورِ حکومت میں جنرل محمد ضیاء الحق نے بھی حکومتِ برما کو متنبہ کیا۔ بعدازاں وقت نے مزید انگڑائیاں لیں اور پیپلز پارٹی کے آصف زرداری کرسی صدارت پر جلوہ گر ہوئے جنھوں نے اوآئی سی کے ایک اہم اجلاس کے موقع پر روہنگیا مسلمانوں کے مظالم پر مؤثر آواز اٹھائی جسے خاص اہمیت اور پذیرائی بھی ملی اس موقع پر پاکستان میڈیا بھی لائقِ تحسین ہے جنھوں نے بہت دیر سے ہی سہی لیکن مذکورہ مظالم کو پوری دنیا کے سامنے بھرپورانداز میں واضح کیا۔
الحمدللہ فضا بدلی ، سوچیں نئے رخ کی طرف مائل ہوئیں اور ملتِ اسلامیہ کے مسلمانوں میں بیداری کی لہر نے اپنے اثرات مرتب کیے اور روہنگیا مسلمانوں کی حالتِ زار پر پاکستان بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں میں بے چینی پھیل گئی اور سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل آئے، ترکی اور سعودیہ کی حکومتوں نے نہ صرف بین الاقوامی سطح پر آوازاٹھائی بلکہ امدادی مہم کو بھی فعال کیا اور خاطر خواہ صورت میں مدد کے لیے عملاً اقدامات کیے۔ بلاتفریق پاکستانیوں کے تمام سیاستدان حضرات نے دوٹوک الفاظ میں پریس کانفرنسز اور احتجاج کے ذریعے شدید مذمتی بیانات دیئے حتیٰ کہ قومی اسمبلی سینٹ اور تمام صوبائی اسمبلیوں میں متفقہ قراردادیں پاس ہوئیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن )، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جمعیت علماءِ اسلام اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین کی بھرپور مذمت سے پورا میڈیا، پوراپاکستان گونج اٹھا۔ ایسے میں ارضِ پاک کے متقدر علماء کرام ومشائخ عظام نے بھی اپنی بھر پور نمائندگی سے نوازا۔ وفاق المدارس وتنظیمات المدارس، رابطۃ المدارس الاسلامیہ، وفاق المدارس السلفیہ و جمعیت اشاعت التوحید والسنت اور دیگر مذہبی وسیاسی جماعتوں نے برما کے روہنگیا مسلمانوں پرجاری ظالمانہ تشدد کی لہر پر پُر زور مذمت کی اور ملکی سطح پر احتجاجی مظاہروں سے میڈیا کی وساطت سے پوری دنیا کو باور کروایا کہ روہنگیا مسلمان اس وقت کرۂ ارض کی مظلوم ترین اور لاچار قوم ہے جن پر جاری بربریت کو ختم کروانے میں عالمی برادری مؤثر کردار ادا کرے۔ لہٰذا اس صدا کی گونج متعد ممالک کے ایوانوں تک پہنچ گئی جس کا وقتی طورپر تو ردِ عمل محسوس ہوا لیکن بعدازاں اس میں سُستی دیکھنے کو ملی شاید یہی وجہ ہے کہ برما کے بدھسٹ عوام اور بھکشوبدمست ہاتھی کی طرح دندناتے نظر آرہے ہیں۔
قارئین محترم! آزاد اور پر امن زندگی کے تصور سے کوسوں دور روہنگیا مسلمانوں کے لیے اب ایک سوچی سمجھی اور منظم سازش کے تحت صوبہ ارکان کے جنگلی اور پہاڑی علاقوں میں حکومتی نگرانی میں مہاجر بستیاں آباد کی جارہی ہیں۔ یوں روہنگیا مسلمان اپنے دیس میں رہتے ہوئے مہاجرانہ زندگی اپنانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جن کی جائیدادیں ، آباء و اجداد صدیوں سے ارکان میں رہے۔ ظالموں کے مظالم ہیں کہ بڑھتے جارہے ہیں۔ ایک طرف جائیدادوں سے محرومی تو دوسری طرف اپنے ملک میں رہنے کے باوجود غیر ملکی قراردیے جارہے ہیں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ برما کے حالیہ الیکشن میں بھی ارکان کے روہنگیا مسلمان اجنبی بنادیے گئے انھیں ووٹ کاسٹ کرنے کے بنیادی اختیار سے محروم کردیا گیا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں قومی شناخت کو ختم کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دینے پر عملاً کام شروع کردیا گیا ہے۔ ستم بالائے ستم پوری دنیا کا آزاد میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں آج منہ میں دہی جمائے محوِ تماشہ نظرآرہی ہیں۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر مسلمان اپنے طور پر مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی مدد و اعانت میں آگے آئے۔ گویہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اسلامی ممالک کے کچھ مسلم حکمران بے حمیتی اور خود غرضی کی غلاظت کو فخر کا مقام سمجھے اپنے حال میں مست نظرآرہے ہیں۔ مقامِ تشکر ہے کہ اب بھی اصحابِ خیر حضرات کی کمی نہیں ہے جن کے دلوں کی دھڑکنیں ، جن کے جذبات اپنے روہنگیا مسلمان بھائیوں کی تکالیف اور مصائب پر تڑپتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکابر علماء کرام اور مشائخ عظام نے روہنگیا مسلمانوں کی زبوں حالی کے پیشِ نظر رفاہی اور فلاحی امداد پہنچانے کے لیے اور اسلامی تعلیمات کو مہاجر بچوں میں عام کرنے کے لیے ایسے حالات میں اقدامات کے حوالے سے باقاعدہ ٹرسٹ کی بنیاد رکھنے کے لیے ارادہ فرمایا کہ مختلف عیسائی این جی اوز کی منظم اور مذموم کارستانیوں کا کچھ مداوا ہوسکے۔چنانچہ اللہ پاک کے فضل وکرم اور بزرگانِ دین کی مخلصانہ کوششوں سے کم و بیش ۲۹ سال قبل ’’خالد بن ولید ٹرسٹ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کی امارت استاذ العلماء حضرت مولانا محمد سلیم اللہ خان مدظلہٗ کے شاگرد رشید مولانا عبدالقدوس برمی کو سونپی گئی جو تال حال اخلاص و للہیت کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں۔لہٰذا ان کے ساتھ رابطہ کرنے والے حضرات مندرجہ ذیل فون نمبروں پر بات کرسکتے ہیں۔
0320-8236500-0336-1258654-0321-2268094

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.