تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

حضرت مولانا محمد یٰسین رحمۃ اﷲ علیہ

سید محمد کفیل بخاری
رفیقِ امیر شریعت، جامعہ قاسم العلوم ملتان کے مہتمم حضرت مولانا محمد یٰسین رحمۃ اﷲ علیہ ۲۶؍ ربیع الاوّل ۱۴۳۷ھ/۷؍جنوری ۲۰۱۶ء بروز جمعرات انتقال کر گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔
حضرت مولانا محمد یٰسین جنوبی پنجاب کے جید عالم دین اور ہمہ جہت شخصیت تھے۔ حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ اور آپ کے خانوادہ سے عقیدت و محبت کا مثالی تعلق تھا، جسے انھوں نے زندگی بھر نبھایا اور حق ادا کیا۔
مولانا، یکم جنوری ۱۹۳۱ء کو ضلع جھنگ کے ایک گاؤں ’’واسو آستانہ‘‘ میں پیدا ہوئے۔ والد ماجد کا نام عبدالرحمنؒتھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے بڑے بھائی فیض احمد مرحوم سے حاصل کی، ۱۹۴۷ء میں مدرسہ ریاض الاسلام جھنگ میں داخل ہو ئے۔ یہاں امام الصرف والنحو حضرت مولانا سطان محمود رحمۃ اﷲ علیہ اور دیگر اساتذہ سے درس نظامی کی کتابیں پڑھیں۔
میرے والد ماجد حضرت سید محمد وکیل شاہ صاحب دامت برکاتہم بھی ۱۹۴۸ئت میں اسی مدرسہ میں داخل ہوئے۔ مولانا محمد یٰسین اور میرے والد ماجد ایک ہی کمرہ میں رہائش پذیر تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مولانا تعلیم میں کچھ کمزور تھے لیکن اساتذہ کے ادب اور خدمت میں سب سے آگے تھے۔ یہی عمل اساتذہ میں اُن کی مقبولیت اور دعاؤں کے حصول کا سبب بنا۔ کچھ عرصہ مدرسہ محمود العلوم، عبدالحکیم میں حضرت پیر سید خورشید احمد شاہ صاحب ہمدانی اور حضرت حافظ محمد حسین رحمۃ اﷲ علیہما سے چند کتابیں پڑھیں، بیعت کا تعلق حضرت پیر سید خورشید احمد صاحب سے تھا اور حضرت پیر صاحب، حضرت شیخ الہند سے بیعت تھے جبکہ حضرت مدنی کے خلفاء میں سے تھے۔
۱۹۵۰ء یا ۵۱ء میں ملتان آ گئے اور کچھ عرصہ مدرسہ خیر المدارس میں حضرت مولانا خیر محمد جالندھری نوّر اﷲ مرقدہٗ کے پاس پڑھتے رہے، پھر مدرسہ قاسم العلوم میں داخل ہو گئے۔ قاسم العلوم میں حضرت مفتی محمد شفیع ملتانی رحمہ اﷲ سے تفسیر اور فنون، حضرت مفتی محمود رحمہ اﷲ سے مسلم شریف اور شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالخالق رحمہ اﷲ (بانی دار العلوم کبیر والہ) سے بخاری و ترمذی پڑھیں۔ ۱۹۵۲ء میں دورۂ حدیث مکمل کیا۔ پھر حضرت امیرشریعتؒ کی سفارش پر حضرت مفتی محمودؒ نے انھیں مدرسہ قاسم العلوم کا سفیر مقرر کیا۔
مولانا محمد یٰسین رحمۃ اﷲ علیہ ہمیشہ اپنے اساتذہ اور بزرگوں کی توجہات کا مرکز رہے۔ مدرسہ قاسم العلوم کچہری روڈ پر واقع تھا اور مدرسہ کے عقب میں محلہ ٹبی شیر خان میں حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کا گھر تھا۔ مولانا محمد یٰسین اپنے سبق سے فارغ ہو کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہو جاتے۔ میرے والد ماجد بتاتے ہیں کہ اکثر آتے ہی عرض کرتے: شاہ جی! کوئی، ٹوپی، کرتا، رومال اور چادر دھونے کے لیے ہو تو دیجیے، میں دھو دیتا ہوں۔ اس طرح وہ خدمت کا کوئی نہ کوئی کام نکال لیتے۔ پھر شاہ جی اُن سے اخبار کی خبریں، اداریہ اور کالم سنتے۔
مولانا خود فرمایا کرتے کہ میری اردو، حضرت شاہ جی نے درست کی۔ میں کوئی لفظ غلط پڑھتا یا لکھتا تو فوراً اصلاح فرماتے۔ اسی طرح زندگی کے دیگر معاملات میں بھی حضرت شاہ جی نے میری بہت رہنمائی کی۔ عید نماز کے لیے ہمیشہ، مولانا ہی شاہ جی کو لے کر جاتے، کبھی ابدالی مسجد اور اکثر خیر المدارس میں نمازِ عید ادا فرماتے۔ مولانا، شاہ جی کے کئی اسفار میں بھی رفیق رہے۔ شاہ جی کے انتقال پر انھیں غسل اور کفن دینے والوں میں شریک تھے۔ انھیں شاہ جی سے بے پناہ محبت تھی۔ بلا کا حافظہ تھا، کسی موضوع پر بات ہو، شاہ جی کی کوئی بات ضرور نکال لاتے، انھیں شاہ جی سے سنے ہوئے اشعار، محاورے، جملے اورواقعات اکثر یاد تھے۔ مجلسی آدمی تھے اور ہمیشہ مجلس پر چھائے رہتے۔ حضرت امیر شریعت کے معالج حضرت حکیم عطاء اﷲ خان رحمہ اﷲ سے تعلق ہوا تو پھر اُن کے پورے خاندان سے تعلق ہو گیا اور یہ حضرت امیر شریعت کی وجہ سے تھا۔ وہ جب بھی حکیم صاحب کے مطب جاتے، مولانا ساتھ ہوتے۔ حضرت حکیم محمد حنیف اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ نے دوا سازی کے لیے ایک احاطہ کرائے پر لیا تھا، جس میں روزانہ بعد العصر مجلس احباب منعقد ہوتی، مولانا کم و بیش پچاس سال اس مجلس میں روزانہ اہتمام سے شریک ہوئے۔ احباب ایک ایک کر کے اﷲ کو پیارے ہو گئے تو مولانا تنہا رہ گئے۔ لیکن انھوں نے تنہائی کو اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیا۔ اب وہ کم و بیش روزانہ دارِ بنی ہاشم میں ابن امیر شریعت حضرت پیر جی سید عطاء المہیمن بخاری مدظلہ اور میرے والد ماجد حضرت حافظ سید محمد وکیل شاہ صاحب دامت برکاتہم کو ملنے تشریف لاتے۔ گزشتہ پندرہ برسوں سے یہ معمول چل رہا تھا۔ چھے ماہ قبل بیمار ہوئے تو پھر ایک دو دن کے وقفے سے آتے، کبھی روزانہ۔ انتقال سے ایک ہفتہ پہلے بھی تشریف لائے اور ایک دن پہلے ہسپتال میں اپنے فرزند مولانا قاری محمد طٰسین سے فرمایا کہ شاہ جی کے ہاں لے چلو۔ یہ اڑسٹھ سال کا تعلق تھا جسے وہ زندگی کے آخری سانس تک نبھاتے رہے۔
مولانا نے تقریباً ۵۵ حج کیے اور ۱۰۰ کے قریب عمرے، انھوں نے حضرت مفتی محمود رحمۃ اﷲ علیہ کے ساتھ بھی متعدد حج کیے۔ حضرت مفتی صاحب نے ایک سفر میں شاہ فیصل مرحوم سے ملاقات کی تو مولانا محمد یٰسین کو ساتھ لے کر گئے۔ مولانا محمد یٰسین نہایت خوش نصیب انسان تھے۔ ایک چھوٹی سی مسجد میں بیس روپے تنخواہ پر خدمت کے لیے مامور ہوئے۔ آج وہ جامع مسجد القادر ہے، اس مسجد میں نمازِ فجر کے بعد کم و بیش چالیس سال درسِ قرآن ارشاد فرماتے رہے۔ ترجمہ و تفسیر قرآن سے انھیں خاص اُنس اور ذوق تھا۔ عربی، اردو تفاسیر کا بہت گہرا مطالعہ تھا۔ کثیر تعداد میں مسنون دعائیں ازبر تھیں۔ عربی زبان پر بہت عبور تھا، وہ بڑی روانی کے ساتھ عربی بولتے تھے۔ جب وہ عربی بولتے تو اپنے لہجے سے عرب معلوم ہوتے تھے۔ انھوں نے اپنے وقت کے جید علماء و مشائخ سے بھرپور علمی وروحانی استفادہ کیا۔ خاص طور پر حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمتہ اﷲ علیہ اور حضرت مولانا محمد عبداﷲ رحمتہ اﷲ علیہ (خانقاہ سراجیہ) کی زیارت اور مجلس نصیب ہوئی۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری اور مولانا خواجہ خان محمد ، مولانا مفتی احمد الرحمن اور مولانا حبیب اﷲ مختار رحمہم اﷲ سے بہت گہرا تعلق تھا۔ وہ اپنی مجلسوں میں اکثر بزرگوں کے ارشادات اور واقعات سناتے۔ مسجدالقادر میں مدرسہ صوت القرآن قائم کیا، جس میں ان کے فرزند و جانشین مولانا قاری محمد طٰسین بچوں کو قرآن کریم حفظ کراتے ہیں۔ مسجد کے چاروں طرف اکثر محلوں کے بچے یہاں قرآن حفظ کرتے ہیں۔ تینوں بیٹے، محمد طٰسین، محمد شعیب اور محمد الیاس، قرآن کے حافظ، بیٹیاں حافظات، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اکثر قرآن کے حافظ عالم اور خدمت دین میں مشغول و مصروف ہیں۔ بیٹیوں نے بچیوں کی تعلیم کے لیے مدرسہ قائم کیا،جس میں بچیاں حفظ قرآن کرتی ہیں۔
۲۶؍ ربیع الاوّل، جمعرات، دس بجے دن انتقال ہوا، عشاء کے بعد ابدالی مسجد میں عظیم الشان جنازہ ہوا، کہ اﷲ والوں کے جنازے بے مثال ہوتے ہیں۔ حضرت امیر شریعت رحمۃ اﷲ علیہ کے قبرستان کے احاطہ میں اپنے رفیق حضرت حکیم محمد حنیف اﷲ کے پہلو میں آسودۂ خاک ہو گئے۔ مولانا محمد یٰسین پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے اور ضرور لکھیں گے مگر کسی دوسری مجلس میں، اﷲ تعالیٰ ان کے حسنات قبول فرمائے، خطائیں معاف فرمائے۔ اولاد و اعمال کو صدقۂ جاریہ بنائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین
٭مولانا محمد اسحق بھٹی رحمۃ اﷲ علیہ: اہلِ حدیث مکتبہ فکر کے ممتاز عالم دین، صاحبِ طرز ادیب، انشاء پرداز اور محقق مولانا محمد اسحق بھٹی گزشتہ ماہ انتقال فرما گئے۔ مرحوم ۱۵؍ مارچ ۱۹۲۵ء میں پیدا ہوئے۔ علم دین کی تحصیل کے بعد عمر بھر خدمتِ دین میں مصروف رہے۔ انھوں نے حضرت مولانا سید محمد داؤد عزنوی رحمۃ اﷲ علیہ اور دیگر اکابر کی معیت میں زندگی کا قیمتی وقت گزارا، انتہائی منکسر المزاج اور شگفتہ طبیعت کے مالک تھے۔ انھوں نے درجنوں کتابیں تالیف و تصنیف کیں، مسلکی تعصب سے بالا تھے۔ انھوں نے مولانا ابو الکلام اور حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کو قریب سے دیکھا اور سنا۔ دونوں شخصیات پر اُن کے طویل مضامین شاہکار تحریریں ہیں۔ عظمت نقوشِ رفتہ اور بزم ارجمنداں، شخصیات پر اُن کی معرکہ آرا کتابیں ہیں۔ گزر گئی گزران آپ بیتی ہے۔ اُن کی تحریریں ایسی دلچسپ، سادہ اور بے ساختہ ہیں کہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ قافلۂ اہل حدیث میں اپنی وضع کے شاید وہ آخری آدمی تھے، وہ اسلاف کی سچی نشانی اور اُن کی قدروں کے امین تھے۔ اﷲ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے، حسنات قبول فرمائے اور اعلیٰ اعلیین میں جگہ عطا فرمائے۔

حضرت مولانا محمد یٰسین رحمۃ اﷲ علیہ پر خیالات

  1. muhammad ahmad hafiz says:

    السلام علیکم ورحمة اللہ
    کفیل بھائی جان سے دست بستہ عرض کرنا ہے کہ اس طرح فٹافٹ ٹائپ کی تحریر لکھنے کی بجائے ذراتفصیل اور اطمینان سے لکھیں ۔تقریر ہوا ہوجاتی ہے ،تحریر صدیوں زندہ رہتی ہے۔اب بھلا یہ بات بھائی جان کو کہنے کی ہے؟بندہ کی ادنیٰ رائے یہ ہے کہ نقیب ختم نبوت میں بھائی کو اپنی یادداشتیں لکھنے پر توجہ دینی چاہیے۔
    نئی ویب سائٹ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی ۔اگر چہ اکثر خانے خالی نیں لیکن اینہاں نوں بھرن دی وی کوشش کرنی چاہئی دی اے ۔خالی کھوکھے ای نہ رہ جان۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.