تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

وحدتِ اُمّت

مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اﷲ علیہ (دوسری قسط)

ایک اہم ارشاد
استاذ الاساتذہ سیدی حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ سابق صدر مدرس دارالعلوم دیوبند نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اجتہادی مسائل اور ان کے اختلاف جن میں ہم اور عام اہل ِ علم اُلجھتے رہتے ہیں اور علم کا پورا زور اس پر خرچ کرتے ہیں‘ ان میں صحیح و غلط کافیصلہ دنیا میں تو کیا ہوتا ‘میرا گمان تو یہ ہے کہ محشر میں بھی اس کا اعلان نہیں ہوگا۔ کیونکہ ربّ کریم نے جب دُنیا میں کسی امام مجتہد کو باوجود خطاہونے کے ایک اجر و ثواب سے نوازا ہے اور ان کی خطا پر پردہ ڈالا ہے تو اس کریم الکرماء کی رحمت سے بہت بعیدہے کہ وہ محشر میں اپنے ان مقبولانِ بارگاہ میں سے کسی کی خطا کا اعلان کر کے اس کو رسوا کریں۔
اس کا حاصل یہ ہے کہ جن مسائل میں صحابہؓ و تابعینؒ اور ائمہ ٔمجتہدینؒ کا نظری اختلاف ہوا ہے‘ ان کا قطعی فیصلہ نہ یہاں ہوگا نہ آخرت میں‘ کیونکہ عمل کرنے والوں کے لیے ان میں سے ہر ایک کی رائے پراپنی ترجیح کے مطابق عمل کر لینا جائز قرار دے دیا گیا ہے۔ اور جس نے اس کے مطابق عمل کر لیا وہ فرض سے سبکدوش ہو گیا۔ اس کو بہ اجماعِ اُمت تارکِ فرض نہیں کہا جا سکتا۔ ان مسائل میں کوئی عالم کتنی ہی تحقیقات کرے ‘ یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کی تحقیق کو یقینی حق و صواب کہا جائے اور اس کے مقابل کوباطل قرار دیا جائے۔ امام حدیث حافظ شمس الدین ذہبیؒ نے فرمایا ہے کہ جس مسئلہ میں صحابہؓ و تابعینؒ کا اختلاف ہو گیا وہ اختلاف قیامت تک مٹایا نہیں جا سکتا ‘کیونکہ اس کے مٹانے کی ایک ہی صورت ہے کہ ان میں سے ایک گروہ کو قطعی طور پر حق پر اور دوسرے کو یقینی طور پر باطل پر قرار دیا جائے ‘اور یہ ممکن نہیں ہے۔
ائمہ مجتہدین کے اختلاف میں کوئی جانب منکر نہیں ہوتی
مذکورۃ الصدر تصریحات سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جس مسئلہ میں صحابہؓ و تابعینؒ اور ائمہ مجتہدینؒ‘ کا اختلاف ہو‘ اس کی کوئی جانب شرعی حیثیت سے منکر نہیں کہلائے گی‘ کیونکہ دونوں آراء کی بنیاد قرآن و سنت اور ان کے مسلّمہ اصول پر ہے۔ اس لیے دونوں جانبین داخل معروف ہیں‘ زیادہ سے زیادہ ایک کو راجح اور دوسرے کو مرجوح کہا جا سکتاہے۔ اس لیے ان مسائلِ مجتہد فیہا میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی کسی پر عائد نہیں ہوتا ‘بلکہ غیر منکر پر نکیر کرنا خود ایک منکر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سلف صالحین کا بے شمار مسائل میں جواز و عدم جواز اور حرمت و حلت کا اختلاف ہونے کے باوجود کہیں منقول نہیں کہ ان میں سے ایک دوسرے پر اس طرح نکیر کرتا ہو جیسے منکرات پر کی جاتی ہے‘ یا ایک دوسرے کو یا اس کے متبعین کو گمراہی یا فسق و فجور کی طرف منسوب کرتا ہو‘ یا اس کو ترکِ وظیفہ یا ارتکابِ حرام کا مجرم قرار دیتا ہو۔ حافظ ابن عبدالبرؒ نے امام شافعیؒ‘ کا جو قول نقل کیا ہے‘ وہ بھی اس پر شاہد ہے جس میں فرمایا ہے کہ ایک مجتہد کو دوسرے مجتہد کا تخطیہ یعنی اس کو خطا وار مجرم کہنا جائز نہیں۔
شرائط ِاجتہاد
حضرت امام شافعیؒ نے جہاں مجتہدین کے آپس میں ایک دوسرے کے تخطیہ کو نادرست قرار دیا ہے وہیں اس کی معقول وجہ اور ایک شرط کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کی عبارت کا متن یہ ہے:
وفی ہٰذا من قول الشافعی دلیل علٰی ترک تخطئۃ المجتہدین بعضہم لبعضٍ‘ اذ کلّ واحد منہم قد ادّی ما کلف باجتہادہٖ اذا کان ممن اجتمعت فیہ آلۃ القیاس وکان ممّن لہٗ ان یجتہد ویقیس (۸)
’’امام شافعیؒ کے کلام میں اس کی دلیل موجود ہے کہ کوئی مجتہد دوسرے مجتہد کو خطاوار نہ قرار دے‘ کیونکہ ان میں سے ہر ایک نے وہ فرض ادا کر دیا جو اس کے ذمہ تھا۔ یعنی اس کے اجتہاد اور قیاس کے شرائط موجود ہوں اور اہل اجتہاد کے نزدیک اس کو اجتہاد و قیاس کا حق حاصل ہو۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ دو مختلف آراء کا یہ احترام کہ ان میں سے کسی کو منکر نہ کہا جائے اور اس کے کہنے ماننے والوں کو خطا وار نہ کہا جائے‘ یہ صرف اس صورت میں ہے کہ اجتہاد صحیح اس کی شرائط کے مطابق ہو۔ آج کل کا سا جاہلانہ اجتہاد نہ ہو کہ جس کو عربی زبان بھی پوری نہیں آتی اور قرآن و حدیث سے اس کا رابطہ کبھی نہیں رہا‘ اردو اور انگریزی ترجموں کے سہارے قرآن و حدیث پر مشق شروع کر دی۔ ایسا اجتہاد خودایک گناہِ عظیم ہے اور اس سے پیدا ہونے والی رائے دوسرا گناہ اور گمراہی اور خلاف و شقاق ہے جس پر نکیر واجب ہے۔
ّسنت و بدعت کی کشمکش میں صحیح طرزِ عمل
ہمارے معاشرے میں مذہب کے نام پر ایک اختلاف وہ بھی ہے جو بدعت و سنت کے عنوان سے پیدا ہوا کہ بہت سے لوگوں نے قرآن و سنت کی تعبیر میں اصولِ صحیحہ کو چھوڑ کر ذاتی آراء کو امام بنا لیا اور نئے نئے مسائل پیدا کر دیے۔ اس قسم کے اختلافات بلاشبہ وہ تفرق و افتراق ہیں جن سے قرآن و سنت میں مسلمانوں کو ڈرایا گیا ہے۔ ان کے ختم یا کم کرنے کی کوشش بلاشبہ مفید ہے‘ لیکن قرآن کریم نے اس کا بھی ایک خاص طریق بتلایا ہے جس کے ذریعے تفرق کی خلیج کم ہوتی چلی جائے‘ بڑھنے نہ پائے۔ یہ وہی اصولِ دعوت الی الخیر ہیں جن میں سب سے پہلے حکمت و تدبیر‘ پھر خیر خواہی و ہمدردی اور نرم قابل ِ قبول عنوان سے قرآن کریم کے صحیح مفہوم کی طرف بلانا ہے‘ اور آخر میں ’’مجادلۃ بالتی ہی احسن‘‘ یعنی حجت و دلیل کے ساتھ افہام و تفہیم کی کوشش ہے۔ مگر افسوس کہ آج کل عام اہل ِ علم اور مصلحین نے ان اصولوں کو نظر انداز کر دیا‘ صرف جدال میں اور وہ بھی غیر مشروط انداز سے مشغول ہو گئے کہ اپنے حریف کا استہزاء ‘ تمسخر اور اس کو زیر کرنے کے لیے جھوٹے‘ سچے‘ جائز و ناجائز حربے استعمال کرنا اختیار کر لیا‘ جس کے نتیجہ میں جنگ و جدال کا بازار تو گرم ہو گیا مگر اصلاحِ خلق کا کوئی پہلو نہ نکلا۔
افتراقِ اُمت کے اسباب
میں نے اس تمہیدی گزارش کو اتنا طول دینا اور اتنی تفصیل سے بیان کرنا اس لیے گوارا کیا کہ مسلمانوں کے طبقات اہل دین و اصلاح اور دینی خدمات انجام دینے‘والوں کے مابین جو تفرقہ آج پایا جاتا ہے وہ عموماً انہی حقائق کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔
اب میں ان اسباب و عوامل کو پیش کرتا ہوں جو میرے غورو فکر کی حد تک مسلمانوں میں باہمی آویزش اور شقاق وجدال کا سبب بنے ہوئے ہیں‘ اور افسوس اس کا ہے کہ اس کو خدمت ِ دین سمجھ کر اختیار کیا جاتا ہے۔
غُلُو:میرے نزدیک اس جنگ و جدل کا ایک بہت بڑا سبب فروعی اور اجتہادی مسائل میں تحزب و تعصب اور اپنی اختیار کر دہ راہِ عمل کے خلاف کو عملاً باطل اور گناہ قرار دینا‘ اور اس پر عمل کرنے والوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرنا ہے جو اہلِ باطل اور گمراہوں کے ساتھ کرنا چاہیے تھا۔ اس پر تمام اُمت کا اتفاق بھی ہے اور عقلاً اس کے سوا کوئی صورت بھی دین پر عمل کرنے کی نہیں ہے کہ جو لوگ خود درجہ اجتہاد کا نہیں رکھتے‘ وہ اجتہادی مسائل میں کسی امام مجتہد کا اتباع کریں‘ اور جن لوگوں نے اپنے نفس کو آزادی اور ہوا پرستی سے روکنے کے لیے دینی مصلحت سمجھ کر کسی ایک امام مجتہد کا اتباع اختیار کر لیا ہے ‘ وہ قدرتی طور پر ایک جماعت بن جاتی ہے۔ اسی طرح دوسرے مجتہد کا اتباع کرنے والے ایک دوسری جماعت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ اگر جماعت بندی مثبت انداز میں صرف اجتہادی مسائل کی حد تک ‘ اپنی تعلیمی اور عملی آسانیوں کے لیے ہو‘ تو نہ اس میں کوئی مضائقہ ہے ‘نہ کوئی تفرقہ اور نہ ملت کے لیے اس میں مضرت۔
مضرت رساں اور تباہ کن ایک تو اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ اپنی رائے اور اختیار سے اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ جنگ و جدل اور دوسرے ان فروعی مسائل کی بحثوں میں غلو کہ سارا علم و تحقیق کا زور اور بحث و تمحیص کی طاقت اور عمر کے اوقاتِ عزیز انہی بحثوں کی نذر ہو جائیں۔اگرچہ ایمان و اسلام کے بنیادی اور قطعی اجماعی مسائل مجروح ہو رہے ہیں‘ کفر والحاد دنیا میں پھیل رہا ہے‘ سب سے صرفِ نظر کر کے ہمارا علمی مشغلہ یہی فروعی بحثیں بنی رہیں‘ جن کے متعلق مذکورۃ الصدر تفصیل میں ابھی آپ معلوم کر چکے ہیں کہ ان میں ہزار تحقیقات کے بعد بھی بات اس سے آگے نہیں بڑھتی کہ یہ راجح ہے اور اس کے خلاف مرجوح ‘اور اس راجح مرجوح کا بھی یقینی فیصلہ نہ دنیا میں ہو سکتا ہے ‘نہ برزخ میں ان کا سوال ہو گا‘ نہ محشر میں اس راجح مرجوح کا اعلان ہوگا۔
اسی طرح نہ ان مسائل میں اختلاف رکھنے والوں پر نکیر کرنا درست ہے ‘نہ ان کو خطاکار مجرم ٹھہرانا صحیح ہے۔ اس وقت ہماری قوم کا برگزیدہ ترین طبقہ علماء و فقہاء کا‘ خصوصاً جو تعلیم و تصنیف میں مشغول ہیں‘ ان کی شبانہ روز مشغولیت کا جائزہ لیا جائے تو بیشترحضرات کی علمی تحقیقات اور سعی و عمل کی ساری توانائی انہی فروعی بحثوں میں محدود نظرآئے گی۔
لمحہ ٔ فکریہ
ان میں بعض حضرات کا غلو تو یہاں تک بڑھا ہوا ہے کہ اپنے سے مختلف رائے رکھنے والوں کی نماز کو فاسد اور اُن کو تارکِ قرآن سمجھ کر اپنے مخصوص مسلک کی اس طرح دعوت دیتے ہیں جیسے کسی منکر اسلام کو اسلام کی دعوت د ی جارہی ہو ‘اور اسی کو دین کی سب سے بڑی خدمت سمجھے ہوئے ہیں۔
معلوم نہیں کہ یہ حضرات اسلام کی بنیادوں پر چاروں طرف سے حملہ آور طوفانوں سے با خبر نہیں یا جان بوجھ کر اغماض کرتے ہیں! اس وقت جبکہ ایک طرف تو کھلے ہوئے کفر ‘عیسائیت اور کمیونزم نے پورے اسلامی ممالک اور اسلامی حلقوں پر گھیرا ڈالا ہوا ہے‘ اور یہ دونوں کفر طوفانی رفتار کے ساتھ اسلامی ممالک میں پھیل رہے ہیں ‘صرف پاکستان میں ہزاروں کی تعداد ہر سال مرتد ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف کفر‘ نفاق اورالحاد خود اسلام کا نام لینے والوں میں کہیں قادیانیت اور مرزائیت کے لباس میں‘ کہیں پرویزیت اور انکارِ حدیث کے عنوان سے‘ کہیں مغرب سے لائی ہوئی اباحیت اور تمام محرماتِ شرعیہ کو حلال کرنے کے طریقوں سے ہمارے ایمان پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ اور یہ الحاد‘ کفر و نفاق پہلے کفر سے اس لیے زیادہ خطرناک ہے کہ اسلام اور قرآن کے عنوان کے ساتھ آتا ہے ‘جن کے دام میں سیدھے سادھے جاہل عوام کا تو ذکر ہی کیا ہے‘ ہمارے نو تعلیم یافتہ نوجوان بہ کثرت اس لیے آجاتے ہیں کہ نئی تعلیم اور نئی معاشرت نے ان کو دینی تعلیم اور اسلامی اصولوں سے اتنا دور پھینک دیا ہے کہ وہ مادی علوم و فنون کے ماہر کہلانے کے باوجود مذہب اور دین کی ابتدائی معلومات سے بھی محروم کر دیے گئے ہیں۔ اور کھلے اور چھپے کفر کی ان ساری اقسام سے بھی اگرکچھ خوش نصیب مسلمان بچ جائیں تو فحاشی‘ عریانی‘ ننگے ناچ ‘رقص و سرود کی محفلوں ‘گھر گھر ریڈیو (اور ٹی وی) کے ذریعہ فلمی گانوں اور سنیماؤں کی زہریلی فضاؤں سے کون ہے جو بچ نکلے!
اسلام اور قرآن کا نام لینے والے مسلمان آج سارے جرائم اور بد اخلاقیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہمارے بازار جھوٹ‘ فریب‘ سود‘ قمار سے بھرے ہوئے ہیں‘ اور ان کے چلانے والے کوئی یہودی نہیں ‘ہندو بنیے نہیں بلکہ اسلام کے نام لیوا ہیں۔ ہمارے سرکاری محکمے رشوت‘ ظلم و جور‘ کام چوری‘ بے رحمی اور سخت دلی کی تربیت گاہیں بنے ہوئے ہیں ‘اور ان کے کارفرما بھی نہ انگریز ہیں‘ نہ ہندو…… محمد مصطفیﷺ کے نام لینے والے اور روزِ آخر پر ایمان کا دعویٰ رکھنے والے ہیں۔ ہمارے عوام علم ِ دین سے کورے‘ جہالتوں میں ڈوبے ہوئے‘ دین کے فرائض و واجبات سے بے گانہ‘ مشرکانہ رسموں اور کھیل تماشوں کے دلدادہ ہیں ؂
اے بسرا پردۂ یثرب بخواب
خیز۱؂ کہ شد مشرق و مغرب خراب!
ان حالات میں کیا ہم پر یہ واجب نہیں کہ ہم غور و فکر سے کام لیں اور سوچیں کہ اس وقت ہمارے آقا رسول کریمﷺ کا مطالبہ اور توقع اہل علم سے کیا ہوگی؟ اور اگر محشر میں آپؐ نے ہم سے سوال کر لیا کہ میرے دین اور شریعت پر اس طرح کے حملے ہو رہے تھے‘ میری اُمت اس بدحالی میں مبتلا تھی‘ تم وراثت ِ نبوت کے دعوے دار کہاں تھے؟ تم نے اس وراثت کا کیا حق ادا کیا؟ تو کیا ہمارا یہ جواب کافی ہو جائے گا کہ ہم نے رفع یدین کے مسئلے پر ایک کتاب لکھی تھی‘ یا کچھ طلبہ کو شرح جامی کی بحث حاصل و محصول خوب سمجھائی تھی‘یا حدیث میں آنے والے اجتہادی مسائل پر بڑی دلچسپ تقریریں کی تھیں‘ یا صحافیانہ زورِ قلم اور فقرہ بازی کے ذریعہ دوسرے علماء و فضلاء کو خوب ذلیل کیا تھا۔
فروعی اور اجتہادی مسائل میں بحث و تمحیص گو مذموم چیز نہیں‘ اگر وہ اپنی حد کے اندر‘ اخلاص سے ‘اﷲ کے لیے ہوتی‘ لیکن جہاں ہم یہ دیکھ رہے ہوں کہ اسلام و ایمان کی بنیادیں متزلزل کر دینے والے فتنوں کی خبر ہم سنتے ہیں‘ اﷲ و رسولؐ کے احکام کی خلاف ورزی بلکہ استہزاء و تمسخر اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور کانوں سے سنتے ہیں‘ مگر ہمارے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ‘تو اس کی کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ یہ فروعی بحثیں ہم اخلاص کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کے لیے کر رہے ہیں؟ اگر ان میں کچھ ﷲیت اور اخلاص ہوتا تو ہم ان حالات کے تحت اسلام اوردین کے تقاضوں کو پہچانتے اور فروع سے زیادہ اصولِ اسلام کی حفاظت میں لگے ہوتے۔ ہم نے تو گویا علمی اور دینی خدمات کو انہی فروعی مباحث میں منحصر کر رکھا ہے اور سعی و عمل کی پوری توانائی اسی پر لگا رکھی ہے‘ اسلام کے اصولی اور بنیادی مسائل اور ایمان کی سرحدوں کو دشمنوں کی یلغار کے لیے خالی چھوڑ دیا ہے۔ لڑنا کس محاذ پر چاہیے تھا اور ہم نے طاقت کس محاذ پر لگا دی۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون! یہ تو تحزب و تعصب کے غلو کا نتیجہ ہے۔
اسی کے ساتھ دوسری بھاری غلطی ان اجتہادی مسائل میں اختلاف کے حدود کو توڑکر تفرق و تشتت‘ جنگ و جدل اور ایک دوسرے کے ساتھ تمسخر و استہزاء تک پہنچ جاناہے جو کسی شریعت و ملت میں روا نہیں‘ اور افسوس ہے کہ یہ سب کچھ خدمت علم ِ دین کے نام پر کیا جاتا ہے۔ اور جب یہ معاملہ ان علماء کے متبعین عوام تک پہنچتا ہے تو وہ اس لڑائی کو ایک جہاد قرار دے کر لڑتے ہیں اوریہ ظاہر ہے کہ جس قوم کا جہاد خود اپنے ہی دست و بازو سے ہونے لگے اس کو کسی غنیم کی مدافعت اور کفر و الحاد کے ساتھ جنگ کی‘فرصت کہاں!
قرآن و حدیث میں اسی تجاوز عن الحدود کا نام تفرق ہے جو جائز اختلافِ رائے سے الگ ایک چیز ہے۔ قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ہے : ﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْاص﴾(آل عمران:۱۰۳)۔دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک وصیت کا ذکر ہے جو تمام انبیاءِ سابقین کو کی گئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: ﴿اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِط﴾(الشوریٰ:۱۳)۔امام تفسیر ابو العالیہؒ نے فرمایا کہ اقامت ِ دین سے مراد اخلاص ہے ‘اور لاَ تَتَفَرَّقُوْا کامطلب یہ ہے کہ آپس میں عداوت نہ کرو‘ بھائی بھائی بن کر رہو۔
اس وصیت کے بعد قرآن میں بنی اسرائیل کے تفرق کا بیان کر کے اہل اسلام کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان کے طریقہ پر نہ جائیں۔ اس میں ارشاد ہے :﴿وَمَا تَفَرَّقُوْآ اِلاَّ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَ ہُمُ الْعِلْمُ بَغْیًام بَیْنَہُمْط﴾(الشوریٰ:۱۴)۔حضرت ابوالعالیہؒ نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ بَغْیًا بَیْنَہُمْمیں اشارہ ہے کہ ایسے اختلاف کا عداوت اور جنگ و جدل تک پہنچنا کبھی دین کے سبب سے نہیں ہوتا‘ بلکہ بغیا علی الدنیا وملکہا وزخرفہا وزینتہا وسلطانہا(۹) یعنی یہ عداوت‘ جب بھی غور کرو تو اس کا سبب دنیا‘ حبّ مال یا حبّ جاہ ہوتا ہے ‘جس کو نفس و شیطان خدمت ِ دین کا عنوان دے کر مزین کر دیتا ہے ‘ورنہ اس طرح کے مسائل میں اختلافِ رائے کی حد وہی ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے‘ کہ مثبت طور پر اپنے عمل کے لیے ایک جانب کو اَصلح سمجھ کر اختیار کر لیں اور اس سے مختلف مسلک رکھنے والوں سے لڑتے نہ پھریں۔ جس طرح دنیا میں انسان جب بیمار ہوتا ہے ‘اپنے معالجہ کے لیے کسی ایک حکیم یا ڈاکٹر کا انتخاب کر کے صرف اسی کے قول پر بھروسہ کرتا ہے اور اسی کی ہدایات پر عمل کرتا ہے ‘مگر دوسرے ڈاکٹروں کو برا بھلا کہتا نہیں پھرتا۔ آپ کسی ایک شخص کو وکیل بنا کر اپنا مقدمہ اس کے سپرد کر دیتے ہیں ‘مگر دوسرے وکلاء سے لڑتے نہیں پھرتے۔ اجتہادی اور مختلف فیہ مسائل میں بھی ٹھیک یہی آپ کا طرزِعمل ہونا چاہیے۔
جماعتوں کا غلو
ہماری دینی جماعتیں جو تعلیم دین‘ یا ارشاد و تلقین‘ یا دعوت و تبلیغ اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے قائم ہیں اور اپنی اپنی جگہ مفید خدمات بھی انجام دے رہی ہیں ان میں بہت سے علماء و صلحاء اور مخلصین کام کر رہے ہیں۔ اگر یہی متحد ہو کر تقسیم کار کے ذریعہ دین میں پیدا ہونے والے تمام رخنوں کے انسداد کی فکر اور امکانی حد تک باہم تعاون کرنے لگیں‘ اور اقامت دین کے مشترک مقصد کی خاطر ہر جماعت دوسری کو اپنا دست و بازو سمجھے اور دوسروں کے کام کی ایسی ہی قدر کریں جیسی اپنے کام کی کرتے ہیں‘ تو یہ مختلف جماعتیں اپنے اپنے نظام میں الگ رہتے ہوئے بھی اسلام کی ایک عظیم الشان طاقت بن سکتی ہیں اور ایک عمل کے ذریعے اکثر دینی ضرورتوں کو پورا کر سکتی ہیں۔
مگر عموماً یہ ہو رہا ہے کہ ہر جماعت نے جو اپنے سعی و عمل کا ایک دائرہ اور نظامِ عمل بنایا ہے‘ عملی طور پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ خدمت ِ دین کو اسی میں منحصر سمجھ رہے ہیں‘ گو زبان سے نہ کہیں۔ دوسری جماعتوں سے اگر جنگ و جدل بھی نہیں تو بے قدری ضرور دیکھی جاتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں ان جماعتوں میں بھی ایک قسم کا تشتت پایا جاتا ہے۔ غور کرنے سے اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ مقصد سب کا اگرچہ دین کی اشاعت‘ حفاظت اور مسلمانوں کی علمی‘ عملی اور اخلاقی اصلاح ہی ہے‘ لیکن اس مقصد کے حاصل کرنے کے لیے کسی نے ایک دارالعلوم قائم کر کے تعلیم دین کی اہم خدمت انجام دی‘ کسی نے ایک تبلیغی جماعت بنا کر رشد و ہدایت کا فرض ادا کیا‘ کسی نے کوئی انجمن بنا کر احکامِ دین کی نشر و اشاعت کا تحریری انتظام کیا‘ کسی نے فتویٰ کے ذریعے خلقِ خدا کو ضروری احکام بتانے کے لیے دارالافتاء قائم کیا‘ کسی نے اسلام کے خلاف ملحدانہ تلبیسات کے جواب کے لیے تصنیفات کا یا ہفتہ واری یا ماہواری رسالہ اخبار کا سلسلہ جاری کیا۔ یہ سب کام اگرچہ صورت میں مختلف ہیں‘ مگر درحقیقت ایک ہی مقصد کے اجزاء ہیں۔ ان مختلف محاذوں پر جو مختلف جماعتیں کام کریں گی یہ ضرور ہے کہ ہر ایک کا نظامِ عمل مختلف ہوگا‘ اس لیے ہر جماعت نے بجا طور پر سہولت کے لیے اپنے اپنے مذاق اور ماحول کے مطابق ایک نظامِ عمل اور اس کے اصول و قواعد بنا رکھے ہیں اور ہر جماعت ان کی پابند ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اصل مقصد تو منصوص‘ قطعی اور قرآن و سنت سے ثابت ہے ‘اس سے انحراف کرنا قرآن و سنت کی حدود سے نکلنا ہے‘ لیکن یہ اپنا بنایا ہوا نظامِ عمل اور اس کے تنظیمی اصول و قواعد نہ منصوص ہیں‘ نہ ان کا اتباع از روئے شرع ہر ایک کے لیے ضروری ہے‘ بلکہ جماعت کے ذمہ داروں نے سہولت ِ عمل کے لیے ان کو اختیار کر لیا ہے۔ ان میں حسب ضرورت تبدیلیاں وہ خود بھی کرتے رہتے ہیں اور حالات اور ماحول بدلنے پر اس کو چھوڑ کر کوئی دوسرا نظامِ عمل بنا لینا بھی کسی کے نزدیک ناجائز یا مکروہ نہیں ہوتا‘ مگر اس میں علمی غلو تقریباً ہر جماعت میں یہ پایا جاتا ہے کہ اپنے مجوزہ نظامِ عمل کو مقصدمنصوص کا درجہ دے دیا گیا۔ جو شخص اس نظامِ عمل میں شریک نہیں اگرچہ مقصد کا کتنا ہی عظیم کام کر رہا ہو‘ اس کو اپنا بھائی اور اپنا شریک ِ کار نہیں سمجھا جاتا‘ اور اگر کوئی اس نظامِ عمل میں شریک تھا پھر کسی وجہ سے اس میں شریک نہ رہا تو عملاً اسے اصل مقصد اور دین سے منحرف سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا جاتا ہے جو دین سے انحراف کرنے والوں کے ساتھ ہونا چاہیے‘ اگرچہ وہ اصل مقصد یعنی اقامت ِ دین کی خدمت پہلے سے بھی زیادہ کرنے لگے۔ اس غلوکے نتیجے میں وہی تحزب و تعصب اور گروہ بندی کی آفتیں اچھے خاصے دیندار لوگوں میں پیدا ہو جاتی ہیں جو جاہلی عصبیتوں میں مبتلا لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔
پیغمبرانہ دعوت کو نظر انداز کرنا
ہماری تبلیغ و دعوت اوراصلاحی کوششوں کو بے کار کرنے اور تفرقہ اور جنگ و جدل کی خلیج کو وسیع کرنے میں سب سے زیادہ دخل اس کو ہے کہ آج کل کے اہل زبان اور اہل قلم علماء نے عموماً دعوت و اصلاح کے پیغمبرانہ طریقوں کو نظر انداز کر کے صحافیانہ زبان اور فقرے چست کرنے ہی کو بات میں وزن پیدا کرنے اور مؤثر بنانے کا ذریعہ سمجھ لیاہے۔ اور تجربے و مشاہدے سے واضح ہے کہ یہ ایک ایسا منحوس طریقہ ہے کہ اس سے خطاکار یا گمراہ کی اصلاح کی کبھی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ یہ طریقِ کار ان کو ضد اور ہٹ دھرمی پر اور زیادہ مضبوط کر دیتا ہے ‘اوراصلاح کے بجائے دلوں میں دشمنی کے بیج بوتا ہے اور عداوت کی آگ بھڑکاتا ہے۔ہاں اپنے ہوا خواہوں اور معتقدین کے لیے کچھ دیر کا سامانِ تفریح ضرور ہو جاتا ہے اور ان کی دادِ سخن دینے سے لکھنے والے بھی کچھ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم نے دین کی بڑی اچھی خدمت کی ہے۔
لیکن جو لوگ اس مضمون کے مخاطب ہوتے ہیں‘ ان کے دلوں سے پوچھئے کہ اگر کسی وقت ان کو اس بات کے حق ہونے کا یقین بھی ہو جائے تو یہ فقرہ بازی اور تمسخر و استہزاء کا طریق ان کو حق کی طرف آنے سے مانع نہیں بن جاتا؟ اور انہیں ہمیشہ کے لیے اس داعی کا دشمن نہیں بنا دیتا ہے؟
پیغمبرانہ دعوت کے عناصر ِ اربعہ
اس کے بالمقابل اﷲ تعالیٰ کے رسولوں ؑ اور پیغمبروں ؑ کی دعوت کا طریقہ ملاحظہ فرمایا جائے تو اس کے الفاظ سادہ مگر عام فہم انسانی ہمدردی سے لبریز اور نرم ہوتے ہیں۔ وہ مخالفین کی سخت ترین بدکلامی سن کر بھی جواب سادہ اورنرم دیتے ہیں ‘فقرے نہیں کستے‘ دل میں ہمدردی کا جذبہ ہوتا ہے کہ کسی طرح یہ حق بات قبول کر لے۔ اس کے لیے حکمت کے ساتھ تدبیریں کرتے ہیں۔
پیغمبرانہ دعوت کی روح قرآن کے ایک لفظ نذیر سے سمجھی جا سکتی ہے جو ہر پیغمبر کے لیے قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے۔
قرآن کریم میں جا بجا ان کو بشیر و نذیر کہا گیا ہے۔ لفظ نذیر کا ترجمہ اردو میں ڈرانے والے کا کیا جاتاہے‘ مگر ڈرانے کا لفظ نذیر کا پورا مفہوم ادا نہیں کرتا۔ اردو زبان کی تنگی کی وجہ سے اس ترجمہ کو اختیار کر لیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈرانے کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں‘ چور ڈاکو کا بھی ڈرانا ہے‘ درندہ اور دشمن کا بھی ڈرانا ہے اور ایک شفیق باپ بھی اپنے بچہ کو سانپ‘ بچھو‘ زہر اور آگ سے ڈراتا ہے۔ پہلی قسم نری تخویف ہے نذارت و انذار نہیں۔ چور‘ ڈاکو یا دشمن اور درندہ کو نذیر نہیں کہا جائے گا‘ اور دوسری قسم جو مہربان باپ کی طرف سے ہے ‘وہ ڈرانا شفقت و ہمدردی کی بنا پر ہے ۔مضر اور تکلیف دہ چیزوں سے ڈرانے والے کو نذیر کہا جاتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کے لیے نذیر کا لفظ استعمال فرما کر ان کی تبلیغ و تعلیم کی روح کی طرف اشارہ کر دیا گیا۔ وہ صرف کوئی پیغام ہی نہیں پہنچاتے‘ بلکہ حکمت اور ہمدردی اور خیرخواہی سے اس پیغام کو مؤثر بنانے اورمخاطب کو ہلاکت سے بچانے کی پوری تدبیر اور کوشش بھی کرتے ہیں۔
قرآن کریم میں دعوتِ پیغمبرانہ کے جو اصول ایک آیت میں بیان کیے گئے ہیں‘ وہ گویا اس لفظ نذیر کی شرح ہیں۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُط﴾(النحل:۱۲۵) اس میں دعوت الی اﷲ کے آداب میں سب سے پہلے بالحکمۃکو رکھا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ داعی کا کام صرف ایک پیغام و کلام کو لوگوں کے کانوں میں ڈال دینا نہیں‘ بلکہ حکمت و تدبیر سے مناسب وقت اورمناسب ماحول دیکھ کر ایسے عنوان سے پہنچانا ہے کہ مخاطب کے لیے قبول کرنا آسان ہو جائے۔
دوسری چیز موعظت ہے جس کے معنی کسی کو ہمدردی و خیرخواہی کے ساتھ نیک کام کی طرف بلانے کے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ داعی کے لیے ضروری ہے کہ جو کلام کرے ہمدردی اور خیرخواہی کے جذبہ سے کرے۔ تیسری چیز موعظت کے ساتھ حسنہ کی قید ہے‘ اس میں اشارہ عنوان کو نرم اور دلنشیں بنانا ہے۔ کیونکہ بعض اوقات خالص ہمدردی و خیرخواہی سے کسی کو اس کی بھلائی کی طرف بلایا جاتا ہے‘ مگر عنوان اور لب و لہجہ دلخراش ہوتا ہے تو وہ دعوت بھی مؤثر نہیں ہوتی‘ اس لیے موعظت کے ساتھ حسنہ کی قید حاصل یہ کہ اس آیت نے دعوتِ پیغمبرانہ کے آداب میں ان تین چیزوں کو ضروری قرار دیا۔ اول حکمت و تدبر‘ اس کام کے لیے دعوت بے کار نہ ہو جائے‘ مؤثر ہو۔ دوسرے ہمدردی و خیرخواہی سے نیک کام کی دعوت۔ تیسرے اس دعوت کا عنوان اورلب و لہجہ نرم و قابل ِ قبول ہو۔
آخر میں ایک چوتھی چیز یہ بتلائی گئی کہ اگر دعوت کو ان آداب کے ساتھ پیش کرنے پربھی قبول نہ کیا جائے اور نوبت مجادلہ ہی کی آجائے تو پھرعامیانہ انداز کا مجادلہ نہ ہونا چاہیے‘ بلکہ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ یعنی اچھے طریقے پرہونا چاہیے۔ ابن کثیرؒ نے اس کی تفسیر میں فرمایا:’’برفق ولین وحسن خطاب‘‘یعنی مجادلہ بھی نرمی‘ خیرخواہی اور حسن خطاب کے ساتھ ہونا چاہیے‘ اور تفسیر مظہری میں فرمایا کہ ’’مجادلۃ بالتی ہی احسن‘‘ یہ ہے کہ اس میں اپنا غصہ اتارنا یا اپنے نفس کی بڑائی پیش نظر نہ ہو‘ خالص اﷲ تعالیٰ کے لیے کلمہ ٔ حق کو بلند کرنے کے لیے ہو‘ اور مجادلہ بالتی ہی احسن صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ‘بلکہ غیر مسلموں سے مجادلہ کی نوبت آئے تو اس میں بھی انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو اسی کی ہدایت کی گئی ہے۔ ایک آیت میں ارشاد ہے : ﴿وَلَا تُجَادِلُوْا اَہْلَ الْکِتٰبِ اِلاَّ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُز﴾(العنکبوت:۴۶)یعنی کفار واہل کتاب سے مجادلہ کی نوبت آئے تو وہ بھی ﴿بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ﴾ یعنی نرمی‘ خیر خواہی اور حسنِ خطاب کے ساتھ ہونا چاہیے۔
انبیاء کا اُسوۂ حسنہ
انبیاء علیہ السلام کے دعوت و اصلاح کے واقعات جو قرآن و حدیث میں بے شمار آئے ہوئے ہیں‘ ان میں ایک ایک کو دیکھئے تو پوری عمر کی کوششوں کو اسی اندازپرپائیں گے۔ حضرت نوح علیہ السلام سو پچاس نہیں بلکہ نو سو برس تک جس قوم کو دعوت دیتے رہے اور ہمدردی و خیرخواہی سے سمجھاتے رہے‘ اس کے باوجود جب ان کی قوم نے سختی اور بے تہذیبی کا معاملہ کیا ‘ان کو گمراہ اور بے وقوف بتایا تو آپ کو معلوم ہے کہ اس رسول مقبول ؑ نے کیا جواب دیا:﴿یٰــقَوْمِ لَـیْسَ بِیْ ضَلٰـلَـۃٌ وَّلٰـکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ (الاعراف) ’’اے میری قوم کے لوگو!(میرے بھائیو!) مجھ میں کوئی گمراہی نہیں‘ بلکہ میں ربّ العالمین کی طرف سے رسول بنا کر( تمہاری بھلائی کے لیے) بھیجا گیا ہوں۔‘‘
سرورِ کائنات ہمارے رسول اکرمﷺ کی پوری زندگی کے واقعات اسی طرز کے شاہدہیں۔ ہر طرح کی ایذائیں سہنے کے بعد بھی ظالموں سے انتقام لینے کا تو ذکر ہی کیا ہے ‘ان کے لیے بھی دعائے خیر کی جاتی۔ اِہْدِ قَوْمِیْ اِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔
جن حضراتِ علماء کو وراثت انبیاء کا کچھ حصہ ملا ہے‘ ان سب کا بھی دعوت و تبلیغ میں یہی حال رہا ہے۔ آخری دور میں حضرت سید اسماعیل شہیدرحمتہ اﷲ علیہ کا واقعہ ہے کہ دہلی کی جامع مسجد سے وعظ کر کے باہر آ رہے تھے کہ مسجد کی سیڑھیوں پر چند غنڈوں نے راستہ روکا اورکہا :ہم نے سنا ہے کہ آپ حرامی ہیں! مولانا نے نہایت طمانیت سے فرمایا کہ بھائی! آپ کو غلط خبر ملی ہے۔ میری والدہ کے نکاح کے گواہ اب تک زندہ موجود ہیں۔وہ جانتے تھے کہ ان کا مقصد صرف گالی دینا اور ایذا پہنچانا ہے‘ مگر وارثِ انبیاء کا جو کام ہونا چاہیے وہ کیا ‘کہ ان کی گالی کو ایک مسئلہ بنا کر بات ختم کر دی۔
طریق ِ نبوت اور ہم
حقیقت یہ ہے کہ دعوت واصلاح کا کام انبیاء ؑیا ان کے وارث ہی کر سکتے ہیں‘ جو قدم قدم پر اپنا خون پیتے ہیں اور دشمن کی خیرخواہی اور ہمدردی میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی رفتار و گفتارمیں کسی مخالف پرطعن و تشنیع کا شائبہ نہیں ہوتا‘ وہ مخالف کے جواب میں فقرے چست کرنے کی فکر نہیں کرتے‘ وہ ان پر الزام تراشی کا پہلو اختیار نہیں کرتے۔ اسی کا یہ اثرہوتا ہے کہ چند روز کی مخالفتوں کے بعد بڑے بڑے سرکشوں کو ان کے سامنے جھکناپڑتا ہے‘ ان کی بات کو ماننا پڑتا ہے۔ آج افسوس یہ ہے کہ ہم اسوۂ انبیاء ؑسے اتنی دور جا پڑے کہ ہمارے کلام و تحریر میں ان کی کسی بات کا رنگ نہ رہا۔آج کل کے مبلغ و مصلح کا کمال یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ مخالف پر طرح طرح کے الزام لگا کر اس کو رسوا کرے اور فقرے ایسے چست کرے کہ سننے والا دل کو پکڑ کر رہ جائے۔ اسی کا نام آج کی زبان میں زبان دانی اور اردو ادب ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ط
اﷲ تعالیٰ تو اپنے انبیاء کو جب مقامِ دعوت پر کھڑا کرتے ہیں تو موسیٰ و ہارونعلیہ السلام جیسے اولوالعزم پیغمبروں کو فرعون جیسے سرکش کافر کی طرف بھیجنے کے وقت یہ ہدایت نامہ دے کر بھیجتے ہیں: ﴿فَقُوْلَا لَـہٗ قَوْلًا لَّـیِّنًا لَّـعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی﴾ (طٰـہٰ)’’پس فرعون سے بات نرم کرنا‘ شاید راستہ پر آجائے اور اﷲ تعالیٰ سے ڈر جائے۔‘‘
آج ہمارے علماء اور مصلحین و مبلغین میں کوئی حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام سے زیادہ ہادی اور رہبر نہیں ہو سکتا اور ان کے مخاطب فرعون سے زیادہ گمراہ نہیں ہو سکتے‘ تو ان کے لیے کیسے رواہو گیا کہ جس سے ان کا کسی رائے میں اختلاف ہو جائے تواس کی پگڑی اُچھا لیں اور ٹانگ کھینچنے کی فکر میں لگ جائیں ‘اور استہزاء و تمسخر کے ساتھ اس پر فقرے چست کریں! اور پھر دل میں خوش ہوں کہ ہم نے دین کی بڑی خدمت انجام دی ہے‘ اور لوگوں سے اس کے متوقع رہیں کہ ہماری خدمات کو سراہیں اورقبول کریں۔
میری نظر میں اس وقت یہ تین اسباب ہیں جو مسلمانوں کا شیرازہ بندھنے نہیں دیتے۔ہر اجتماع کے نتیجے میں افتراق‘ ہر تنظیم کے نتیجہ میں تفریق‘ ہر اصلاح کے نتیجہ میں فساد اور ہر دعوت کے نتیجہ میں نفرت ہمارے سامنے آتی ہے۔ کاش ہم مل کر سوچیں اور دوسروں کی اصلاح سے پہلے اپنی اصلاح کی فکر کریں‘ کیونکہ اصل مرض یہی ہے کہ حبِّ مال و جاہ اور حسد و بغض کی نجاستوں سے اپنے قلوب پاک نہیں۔ ہمیں اس پر بڑا ناز ہے کہ ہم چوری‘ رشوت‘ سود‘ شراب‘ رقص و سرود اور سنیما سے پرہیز کرتے ہیں اور نماز روزے کے پابند ہیں۔ لیکن خطرہ یہ ہے کہ کہیں ہماری یہ نماز روزہ کی پابندی اور سود‘ شراب‘ رقص و سرود سے پرہیز کہیں ایسا تو نہیں کہ صرف اپنی مولوی گری کے پیشہ کی خاطر ہو۔ کیونکہ اس پیشہ میں ان چیزوں کی کھپت نہیں ‘ورنہ اگر ہم ان چیزوں میں سے خالص خوفِ خدا کی بنا پر بچے ہوتے تو حبِّ مال و جاہ‘ حسد و بغض‘ کبر و ریا سے بھی بچے ہوتے‘ کیونکہ ان کی نجاست کچھ سود و شراب سے کم نہیں‘ مگر یہ باطنی گناہ ہمارے جُبے اورعمامے کے ساتھ جمع ہو سکتے ہیں اس لیے ان کی پرواہ نہیں ہوتی‘ اور یہی وہ چیزیں ہیں جو دراصل سارے تفرقوں کی بنیاد ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں ان سب آفتوں سے بچنے کی توفیق ِ کامل عطا فرمائے‘ تا کہ ہم ایک دل ہو کر دعوت و اصلاح کا کام پیغمبرانہ جذبہ اور پیغمبرانہ آداب کے ساتھ لے کر کھڑے ہو جائیں۔
خلاصۂ کلام
اہل نظر و فکر سے یہ بات مخفی نہیں کہ اس وقت دنیا کے ہر خطے اور ہر ملک میں مسلمان جن مصائب اور آفات میں مبتلا ہیں ‘ان کا سب سے بڑا سبب آپس کا تفرقہ اور خانہ جنگی ہے۔ ورنہ عددی اکثریت اور مادی اسباب کے اعتبار سے پوری تاریخ اسلام میں کسی وقت بھی مسلمانوں کو اتنی عظیم طاقت حاصل نہیں تھی جتنی آج ہے۔
اور اس تفرقہ کے اسباب پر جب غور کیا جاتا ہے تو اس کا سبب خدا اور آخرت سے غفلت اور دوسری قوموں کی طرح صرف دنیاکی چند روزہ مال و دولت اور عزت و جاہ کی ہوس بے لگام ہے‘ جو ہمارے معاشرہ میں کبھی سیاسی اقتدار کے لیے کشمکش‘ تجارتی اور صنعتی ریس‘ عہدوں اور منصبوں کی خاطرباہمی تصادم کی صورت میں ہمارے معاشرہ کو پارہ پارہ کرتی ہے اور کبھی مذہبی اور دینی نظریات کی آڑ اور مختلف نظاموں کے روپ میں ایک دوسرے کے خلاف اہانت و استہزاء کا ذریعہ بن جاتی ہے‘ وگرنہ اگر اجتہادی نظریات کے باہمی اختلاف کے باوجود صحابہ و تابعین کی طرح ہماری جنگ کا رُخ صرف کفر و الحاد اور بے دینی کی طرف ہو جائے تواس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی مختلف جماعتیں ایک صف اور ایک بنیانِ مرصوص نظر آئیں۔
ذمہ دار علماء سے دردمندانہ گزارش
سیاسی اور اقتصادی میدان اور اعزاز و منصب کی دوڑ میں بے اعتدالیوں کی روک تھام تو سرِ دست ہمارے بس میں نہیں ‘لیکن خود دین و مذہب کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کے نظریاتی اور نظامی اختلافات اشتراکِ مقصدکی خاطر معتدل کیے جاسکتے ہیں۔ اگر ہم اسلام کے بنیادی اصول کی حفاظت اور الحاد وبے دینی کے سیلاب کی مدافعت کے اہم مقصد کو صحیح معنی میں مقصد اصلی سمجھ لیں تو یہ وہ نقطۂ وحدت ہے کہ جس پر مسلمانوں کے سارے فرقے اورساری جماعتیں جمع ہو کر کام کر سکتی ہیں اور اسی وقت اس سیلاب کے مقابلہ میں کوئی مؤثر کام انجام پا سکتا ہے۔
لیکن حالات کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ یہ مقصد اصلی ہی ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے‘ اس لیے ہماری توانائی اور علم و تحقیق کا زور آپس کے اختلافی مسائل پر صَرف ہوتا ہے‘ وہی ہمارے جلسوں‘ وعظوں‘ رسالوں اور اخباروں کا موضوع بحث بنتے ہیں۔ ہمارے اس عمل سے عوام یہ سمجھنے پر مجبورہو جاتے ہیں کہ دین اسلام صرف اِن دو چیزوں کا نام ہے اور جس رُخ کو انہوں نے اختیارکرلیا ہے اس کے خلاف کو گمراہی اور اسلام دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں‘جس کے نتیجہ میں ہماری وہ طاقت جو کفر و الحاد اور بے دینی اور معاشرہ میں بڑھتی ہوئی بے حیائی کے مقابلہ پر خر چ ہوتی‘ آپس کی جنگ و جدل میں خرچ ہونے لگتی ہے۔ اسلام و ایمان ہمیں جس محاذ پر لڑنے اور قربانی دینے کے لیے پکارتا ہے‘ وہ محاذ دشمنوں کی یلغار کے لیے خالی پڑا نظر آتاہے۔ ہمارا معاشرہ سماجی برائیوں سے پُر ہے‘ اعمال و اخلاق برباد ہیں‘ معاملات و معاہدات میں فریب ہے۔ سود‘ قماربازی‘ شراب‘ خنزیر ‘ بے حیائی اور بدکاری ہماری زندگی کے ہر شعبہ پر چھا گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انبیاء کے جائز وارث اور ملک و ملت کے نگہبانوں کو آج بھی اپنے سے نظریاتی اختلاف رکھنے والوں پر جتنا غصہ آتا ہے‘ اس سے آدھا بھی ان خدا کے باغیوں پر کیوں نہیں آتا؟ اور آپس کے نظریاتی اختلاف کے وقت جس جوشِ ایمانی کا اظہار ہوتا ہے وہ ایمان کے اس اہم محاذ پر کیوں ظاہر نہیں ہوتا؟ ہمارا زورِ زبان اور زورِ قلم جس شان سے اپنے اختلافی مسائل میں جہاد کرتا ہے‘ اس کا کوئی حصہ سرحدات اور اصولِ ایمانی پر ہونے والی یلغار کے مقابلہ میں کیوں صرف نہیں ہوتا؟ مسلمانوں کو مرتد بنانے والی کوششوں کے بالمقابل ہم سب بنیانِ مرصوص کیوں نہیں بن جاتے؟
آخر ہم اس پر غور کیوں نہیں کرتے کہ بعثت ِ انبیاء اور نزولِ قرآن کا وہ مقصد ِ عظیم جس نے دنیا میں انقلاب برپا کیا ‘اور جس نے اولادِ آدم کو بہیمیت سے نکال کر انسانیت سے سرفراز کیا‘ اور جس نے ساری دنیا کو اسلام کا حلقہ بگوش بنایا‘ کیا وہ صرف یہی مسائل تھے جن میں ہم اُلجھ کر رہ گئے ہیں؟‘اور کیا دوسروں کو ہدایت پر لانے کا طریق اور پیغمبرانہ دعوت کا یہی عنوان تھا جو آج ہم نے اختیار کر رکھاہے؟
﴿اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُہُمْ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّلا﴾
’’کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ایمان والوں کے دل اﷲ کے ذکر اور اس کے نازل کیے ہوئے حق کی طرف جھک جائیں؟‘‘(الحدید:۱۶)
آخروہ کون سا وقت آئے گا جب ہم اپنے نظریاتی اور نظامی مسائل سے ذرا آگے بڑھ کر اصولِ اسلام کی حفاظت اوربگڑے ہوئے معاشرہ کی اصلاح کو اپنا اصلی فرض سمجھیں گے‘ ملک میں عیسائیت اور کمیونزم کے بڑھتے ہوئے سیلاب کی خبر لیں گے‘ قادیانیت کے انکارِ حدیث اور تحریف ِ دین کے لیے قائم شدہ اداروں کا پیغمبرانہ دعوت واصلاح کے ذریعے مقابلہ کریں گے؟
اور اگر ہم نے یہ نہ کیا اور محشر میں ہمارے مأویٰ اور ملجأ رسول کریمﷺ نے ہم سے یہ سوال فرما لیا کہ میری شریعت اورمیرے دین پر یہ حملے ہو رہے تھے‘ اسلام کے نام پر کفر پھیلایا جا رہا تھا‘ میری اُمت کو میرے دشمنوں کی اُمت بنانے کی کوشش مسلسل جاری تھی‘ قرآن و سنت کی کھلے طور پر تحریف کی جا رہی تھی‘ خدا اور رسولؐ‘ کی نافرمانی اعلانیہ کی جا رہی تھی‘ تو تم مدعیانِ علم کہاں تھے؟ تم نے اس کے مقابلے پر کتنی محنت اور قربانی پیش‘کی؟ کتنے بھٹکے ہوئے لوگوں کو راستے پر لگایا؟ تو آج ہمیں سوچ لینا چاہیے کہ ہمارا جواب کیا ہوگا۔
راہِ عمل
اس لیے ملت کا درد اور اسلام و ایمان کے اصول و مقاصد پر نظررکھنے والے حضراتِ علماء سے میری دردمندانہ گزار ش یہ ہے کہ مقصد کی اہمیت اور نزاکت کو سامنے رکھیں۔ سب سے پہلے تو اپنے دلوں میں اس کا عہد کریں کہ اپنی علمی و عملی صلاحیت اور زبان و قلم کے زور کو زیادہ سے زیادہ اس محاذ پر لگائیں گے جس کی حفاطت کے لیے قرآن و حدیث آپ کو بلا رہے ہیں۔
(۱) علماءِ کرام! اس بات کا عہد بھی کیجیے اور فیصلہ بھی کہ اس کام کے لیے اپنے موجودہ مشاغل میں سے سب سے زیادہ وقت نکالیں گے۔ (۲) دوسرے یہ کہ آپس کے نظریاتی اور اجتہادی اختلاف کو صرف اپنے اپنے حلقۂ درس ‘تصنیف و تالیف اور فتویٰ تک محدود رکھیں گے۔ عوامی جلسوں‘ اخباروں‘ اشتہاروں‘ باہمی مناظروں اور جھگڑوں کے ذریعے ان کو نہ اچھالیں گے۔ ان حلقوں میں بھی پیغمبرانہ اصولِ دعوت و اصلاح کے تابع دلخراش عنوان اور طعن و تشنیع‘ استہزاء و تمسخر اور صحافیانہ فقرہ بازی سے گریز کریں گے۔ (۳) تیسرے یہ کہ معاشرہ میں پھیلی ہوئی بیماریوں کی اصلاح کے لیے دل نشین عنوان اور مشفقانہ لب ولہجہ کے ساتھ کام شروع کردیں گے۔ (۴) چوتھے یہ کہ الحاد و بے دینی اور تحریف ِ قرآن و سنت کے مقابلہ کے لیے پیغمبرانہ اصولِ دعوت کے تحت حکیمانہ تدبیروں‘ مشفقانہ و ناصحانہ بیانوں اور دلنشین دلائل کے ذریعہ مجادلہ بالتی ہی احسن کے ساتھ اپنے زورِ بیان اور زورِ قلم کو وقف کر دیں گے۔
میں جو کچھ کہہ گیا ہوں‘ افسوس کہ نہ میرا منصب تھا نہ علماء کرام کے سامنے مجھے ایسی جرأت کرنا چاہیے تھی ‘مگر دکھی دل کے کچھ کلمات ہیں جو زبان پر آگئے۔ میرے محترم بزرگ مجھے معاف فرمائیں اور اگر ان باتوں میں کوئی مفید پہلو ہے تو وہ خود اُن کا اپنا کام ہے‘ اس کو اختیار فرمائیں۔ مجھے امید ہے کہ اگر حضرات علماء اس طرف متوجہ ہو گئے اور کام شروع کیا تو اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ﴿اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ﴾(محمد:۷)یعنی ’’اگر تم اﷲ کی مدد کرو گے تو اﷲ تمہاری مدد کرے گا‘‘ آنکھوں سے پورا ہوتا ہوا مشاہدہ کریں گے۔
﴿ اِنْ اُرِیْدُ اِلاَّ الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُط وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلاَّ بِاللّٰہِط عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ اُنِیْبُ﴾ (ھود)
حواشی
(۱)جامع العلم‘ ص ۸۰۔ جامع بیان لابن عبد البر، ج۲’ ص ۸۳۔ (۳) جامع بیان العلم۔ (۳) جامع بیان العلم۔
(۴)اوجز المسالک شرح موطأ مالک‘ ج۱‘ ص۱۵‘ محمد بن عبد الرحمٰن صیرفی۔ (۵) جامع بیان العلم‘ ج۳‘ ص۸۳۔
(۶) جامع بیان العلم‘ ج۲‘ ص ۸۴۔ (۷)جامع بیان العلم‘ ج۲‘ص۷۳۔ (۸)جامع بیان العلم‘ ج۲‘ ص۷۳۔
(۹)جامع العلم‘ ج۲‘ص۸۳۔
(جاری ہے)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.