تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

پاکستانی میڈیا کا ’’اپریل فول ‘‘ اور ہمارا ثقافتی فقدان

عاصم حفیظ

پاکستانی قوم کو مبارک ہو کہ اور کسی نے منایا ہو یا نہ منایا ہو ، ملک کے روشن خیال اور روایت سازمیڈیا نے خوب دھوم دھڑکے سے ’’ اپریل فول ‘‘ نامی تہوار منایا ہے ۔ملک کے بڑے میڈیا نیٹ ورک ’’ اے آر وائی نیوز‘‘ اور ’’ نیو چینل‘‘ کی جانب سے کرکٹ ورلڈ کپ سیمی فائنل کے حوالے سے جھوٹی خبریں چلائی گئیں اور بعدازاں انہیں اپریل فول قرار دے دیا گیا۔ گویا میڈیا لوگوں کو یہ یاد کرانے میں کامیاب رہا کہ آج ایک اپریل فول نامی تہوار بھی ہے ۔ اسے کہتے ہیں توجہ مبذو ل کرانا ۔ کہیں کوئی بھول نہ جائے ۔کسی قوم میں من پسندروایات اور رسوم و رواج کس طرح پروان چڑھائے جاتے ہیں یہ تو کوئی پاکستانی میڈیا سے ہی سیکھے ۔ ہر مغربی و بھارتی تہوار ، ثقافتی تقریب کو روشن خیالی کے نام پر اپنا لیا جاتا ہے ۔ ویلنٹائن ڈے ، نیو ائیر نایٹ اور ایسے کئی تہوار اور دن ہیں کہ جو میڈیا نے ملک میں اہم بنا دئیے ہیں ۔ ویسے تو اب ہماری حکومت اور ریاستی ادارے بھی لبرل و سیکولرازم کے جھنڈے کی سربلندی کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ کر سرگرمیاں دیکھا رہے ہیں ۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک صوبے نے ہندو تہوار کی عام تعطیل کی ۔ اقلیتوں کے حقوق سے کسی کو انکار نہیں لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ان کی عبادات میں گھس کرہی اظہار کیا جائے ۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری ہر سال ہولی کی تقریب پر اپنی اس خواہش کا اظہار ضرورکرتے ہیں کہ ملک کا صدر کسی غیر مسلم کو بنایا جائے ۔اب تو کئی حلقے اس بات کا اظہار کرنے لگے ہیں کہ جتنی محنت اور وسائل ہمارے حکومتی ادارے ، ریاستی مشینری ، این جی اوز ، میڈیا اور دیگر روشن خیال طبقے ملک کو سیکولر اور لبرل بنانے پر خرچ کر رہے ہیں اس کا بہترین حل یہ ہے کہ فوری طور پر ملک کو کسی مغربی ریاست کا صوبہ وغیرہ قرار دیکر وہیں کہ رسوم و رواج اور قوانین نافذ کر دئیے جائیں ۔ تاکہ ایک دم سے وہ منزل حاصل ہو جائے کہ جس کے لئے یہ سب طبقات دن رات محنت میں مصروف ہیں ۔ سنا تو یہی ہے کہ کوئی بھی قوم اپنی رسوم و رواج اور روایات سے ہی پہچانی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں تو چلن ہی الگ ہے ۔یہاں اپنی دینی ، سماجی اور ثقافتی رسوم و رواج اور روایات کو پروان چڑھانے کی بجائے ہر کوئی دوسروں کی رسومات میں گھسنے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ شائد اتنے زور و شور سے تو یہ سب تہوار وہاں بھی نہ منائے جاتے ہوں گے کہ جن کی تقلید میں ہمارے ہاں منائے جاتے ہیں ۔ اسے کہتے ہیں ثقافتی اورسماجی بحران۔ہماری قومی شناخت اور ثقافتی پہچان تو جیسے مٹ ہی چکی ہے۔
شائد ہمارے پاس اب کچھ بھی نہیں ، نہ اپنی ثقافت ، نہ اپنے تہوار ، نہ اپنی رسومات ،نہ اپنی روایات ۔۔ کچھ بھی تو نہیں!

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.