تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

تبصرہ کتب

                                                                                         مبصر: صبیح ہمدانی

نام کتاب: قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ (جدید ایڈیشن) مؤلف: پروفیسر محمد الیاس برنی رحمۃ اﷲ علیہ تصحیح و ترتیب ِجدید: عبد الرحمن باوا ناشر: ختمِ نبوّت اکیڈمی، لندن ضخامت: ۸۰۰ صفحات قیمت: درج نہیں

ملتِ کاذبہ مرزائیہ کے نمودار ہونے سے لے کر آج تک علمائے اسلام نے اس موضوع پرجو تحریری خدمات سر انجام دی ہیں وہ حقانیتِ اسلام کی ایک مستقل دلیل ہیں۔یعنی مسیلمۂ پنجاب اور اس کی امت کی جانب سے اٹھائے جانے والا کوئی ایک مغالطہ ایسا نہیں کہ علمائے اسلام نے اسے تشنۂ جواب رکھا ہو اور شافی جواب نہ دیا ہو۔ اس مبارک تحریری جدوجہد کے سلسلے کی ابتدائی کتابوں میں سے ایک مشہور اور متداول کتاب ’’قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ‘‘ ہے۔ جسے عثمانیہ یونیورسٹی، حیدر آباد دکن کے شعبہ معاشیات کے پروفیسر جناب الیاس برنی مرحوم و مغفور نے تالیف فرمایا۔
کتاب کو اپنے پہلے ایڈیشن سے ہی علمائے امت کی جانب سے بے تحاشا داد و پذیرائی حاصل ہوئی۔ کتاب کی قابلِ ذکر خصوصیت یہ ہے کہ یہ قادیانی گمراہی کے کسی ایک پہلو پر منحصر نہیں بلکہ اس امّتِ ضالّہ کے اعتقادوعمل کے ہر ہر پہلو سے بحث کرتی ہے۔اور یہ بحث خالص علمی اسلوب کی حامل ہے۔ چنانچہ کتاب میں مذکور ہر ایک قادیانی عقیدے اور داستان کو سیکڑوں کتابوں کے حوالوں سے ثابت کیا گیا ہے۔ اسی طرح اس کتاب کے مؤلف گرامی جدید تعلیم یافتہ ہونے کی بنا پر نژادِ نو کے محاورے اور اسلوب سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ مزید برآں حسن ترتیب کا ملکہ انھیں حاصل ہے جس کی بدولت اپنی طرف سے زیادہ کچھ کہے بغیر محض قادیانی اقتباسات کو صحیح ترتیب اور عنوان لگا دینے سے ہی انھوں نے مدّعا کو غیر معمولی وضاحت کے ساتھ ثابت کیا ہے۔
زیرِ نظر طباعت ہمارے محترم اور بزرگ مجاہدِ ختمِ نبوّت جناب عبد الرحمن باوا مدظلہ کی تحقیق و تصحیح سے شائع ہوئی ہے۔ فاضل محقق نے کتاب کی خدمت میں بہت محنت کا مظاہرہ کیا ہے۔ کتاب خوبصورت کمپیوٹر کمپوزنگ، مضبوط جلد بندی ، حوالوں کی جدید تخریج اور متنِ کتاب کی کمزوریوں کی تصحیح جیسی خوبیوں سے متصف ہونے کی وجہ سے مزید قیمتی ہو گئی ہے۔پروف کی غلطیاں مقدار اور نوعیت کے اعتبار سے خاصی قلیل ہیں۔ البتہ فاضل محقق اگر مروّجہ اصولِ تحقیق متون (مثلاً محقق کے اضافوں کو حاشیے میں درج کرنا، مرتّب فہرست کتابیات جس میں سنین اور مقام اشاعت مذکور ہوں اور اشاریے کا اضافہ وغیرہ) کو ملحوظ رکھ لیتے تو نور علی نور کی کیفیت حاصل ہو جاتی۔ جیسا کہ ذکر ہوا، یہ کتاب تحفظ ختم نبوّت کے موضوع پر بڑی بڑی لائبریریوں سے بے نیاز کر دینے والی کتاب ہے۔ جو حضرت عبد الرحمن باوا مد ظلہ کے اشراف و اعتناء کے بعد اس حالت میں اپنی سابقہ طباعتوں سے کہیں زیادہ سہل الاستفادہ اور دیدہ زیب ہو چکی ہے۔ اﷲ تعالی جناب مؤلف مرحوم و مغفور اور جناب محقق کی اس کاوش کو قبول فرما لیں اور میزان حسنات میں مندرج فرمائیں۔

نام کتاب: اقوالِ محمود تالیف: اختر کاشمیری تدوین و اضافہ: محمد فاروق قریشی
ناشر: مفتی محمود اکیڈمی، جمعیت سیکرٹریٹ، علامہ بنوری ٹاؤن۔ کراچی ضخامت: ۳۰۴ صفحات قیمت: ۳۰۰ روپے۔

جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے جلیل القدر رہنما حضرت مولانا مفتی محمود رحمۃ اﷲ علیہ زمانہ قریب کی ایک عبقری شخصیت تھے۔ آں جناب جہاں ایک صائب الرائے مفکر اور ایک عزیمت گام مسلّمہ سیاسی رہنما تھے وہیں خالص علمی و درسی میدان میں بھی انتہائی بلند پایہ کے عالم دین اور مفتی تھے۔
۱۹۷۰ء کی دہائی پاکستان میں روس نواز سوشلسٹ نظریاتی سیاست کے عروج اور پھر زوال کی دہائی تھی۔ ہر طرف ایشیا سرخ ہے کہ نعرے تھے۔ یہاں کا دین مخالف طبقہ اپنی بد باطنی وبد نہادی کی اکلوتی پناہ گاہ کے طور پر سوشلزم کو پاکستان امپورٹ کرنے کی سرتوڑ کوششوں میں لگا ہوا تھا۔ ایسے میں اﷲ تعالی نے جن خوش بخت رہنمایانِ قوم سے دین متین کی حفاطت کا کام لیا ان کے سرگروہوں میں حضرت مولانا مفتی محمود رحمۃ اﷲ علیہ کا اسم گرامی شامل ہے۔
زیرِ نظر کتاب حضرت مفتی صاحب قدس سرہٗ کے ملفوظات و ارشادات کا گراں قدر مجموعہ ہے جسے پہلی بار معروف صحافی جناب اختر کاشمیری نے ۱۹۷۴ء میں ترتیب دے کر شائع کیا اور اب ہمارے مکرّم جناب محمد فاروق قریشی صاحب نے اضافوں کے ساتھ مدوّن کر کے نشرِ مکرّر کیا۔ کتاب مختصر اقوال کا مجموعہ ہے جس میں اس ہنگامہ خیز دورِ سیاست کا رنگ نظر آتا ہے جس میں حضرت مفتی صاحب نور اﷲ مرقدہ راہِ عزیمت پر گامزن تھے۔ لیکن یہ رنگ اس کتاب کا یا حضرت مفتی صاحب مرحوم و مغفور کا اکلوتا رنگ نہیں، بلکہ اس کتاب میں ان کی ہمہ جہت شخصیت کے گوناگوں محاسن نظر آتے ہیں۔
البتّہ جیسا کہ اہلِ علم جانتے ہیں حضرت مفتی صاحب رحمہ اﷲ ایک عمیق النظر صاحب فتوی بھی تھے، لیکن یہ کتاب حضرت مفتی صاحب کی سیرت کے اس بھاری بھرکم پہلو کی رو نمائی نہیں کراتی۔ اسی طرح حضرت ممدوح کی حیاتِ طیّبہ کا متصوّفانہ پہلو بھی اس کتاب کی گرفت میں نہیں آسکا، جبکہ حضرت صاحبِ نسبت اہل حال میں سے تھے۔ پھر یہ کتاب مختصر اقوال کا مجموعہ ہے چنانچہ ایسے اقوال کی ضرورت محسوس ہوتی ہے جن میں چاہے کسی قدر طوالت ہو لیکن وہ زیر بحث نکات پر قدرے تفصیل سے حضرت مفتی صاحب کی آراء کا اظہار کرتے ہوں۔در اصل معاملہ یہ ہے کہ جناب محمد فاروق قریشی نے اس کتاب کو بڑی محبت کے ساتھ اس قدر خوبی اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق شائع کیا ہے کہ ان سطور کا راقم حضرت مفتی صاحب کی ذات با برکات سے اپنی عقیدت کے اِن چند زاویوں پر بھی قریشی صاحب کی توجہ دلانا چاہتا ہے تا کہ وہ اپنے آئندہ منصوبوں میں ان پہلوؤں کو بھی سیراب کر کے ہم تشنگان کی دعائیں سمیٹ سکیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.