تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

احادیثِ نُزولِ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ

حافظ عبید اﷲ                                                         (قسط: ۲) 
ایک مسلمان کے لئے ہر اُس بات پر ایمان لانا اور اسے تسلیم کرنا واجب ہے جو نبی کریمصلی اﷲ علیہ وسلم سے صحیح اور معتمد طریقے سے ثابت ہو، چاہے اس کا تعلق آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے ہونے والے واقعات سے ہو یا قیامت تک آنے والے حوادث سے ہو ، جو شخص کسی ایسی بات کی تکذیب کرے جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت ہو تو ایسے شخص کا ایمان مشکوک ہے کیونکہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دینا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ان تمام باتوں میں تصدیق کی جائے جن کی آپ صلی اﷲ علیہ وسلمنے خبر دی، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اقاتل الناس حتی یشہدوا ان لا الہ الا اﷲ ویؤمنوا بی وبما جِئتُ بہ ……‘‘ میں لوگوں کے ساتھ اس وقت تک قتال کروں گا جب تک وہ اﷲ کی وحدانیت کی گواہی نہ دیں اور جب تک مجھ پر اور جو کچھ میں لے کر آیا ہوں اُس پر ایمان نہ لے آئیں (صحیح مسلم، کتاب الایمان: حدیث نمبر 34) اس حدیث شریف میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ صرف قرآن کریم پر ایمان لانا ہی کافی ہے بلکہ فرمایا کہ ’’جو کچھ میں لے کر آیا ہوں‘‘ اُس کو ماننا بھی ضروری ہے، اسی بات کی مزید تشریح دوسری احادیث سے ہوتی ہے، حضرت ابورافع رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلمنے فرمایا: لا ألفِیَنّ احدَکُم مُتَّکِئاً علیٰ أرِیکَتِہ یأتیہ الأمر من أمری مِمّا أمرتُ بہ أو نہیتُ عنہ فیقُولُ لا نَدرِي ما وَجدنا في کتاب اﷲ اتبعناہ‘‘ میں تم سے کسی کو ایسا نہ پاؤں کہ وہ اپنی مسند پر تکیہ لگائے بیٹھا ہو اور اس کے پاس میری بات پہنچے جس کا میں نے حکم دیا ہو یا اُس سے منع کیا ہو اور وہ شخص کہے کہ ہم نہیں جانتے ہم تو اسی بات کی پیروی کریں گے جو اﷲ کی کتاب میں ہے (سنن ابی داود، حدیث نمبر: 4605 ، سنن ابن ماجۃ، حدیث نمبر: 13، مسند احمد، حدیث نمبر:23876، المستدرک للحاکم، حدیث نمبر:368)، اسی طرح حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اﷲ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے ایک (اﷲ کی) کتاب دی گئی ہے اور اس کے برابر یا اس کی مثل اور چیز بھی دی گئی ہے ، قریب ہے کہ اپنی مسند پر تکیہ لگائے ایک پیٹ بھرا شخص یوں کہے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان یہ کتاب (یعنی قرآن) ہی کافی ہے، جوچیز اس میں حلال ہے اسے حلال سمجھیں گے اور جو اس میں حرام ہے ہم اُسے حرام سمجھیں گے ، خبردار! معاملہ اس طرح نہیں ہے ، آگاہ رہو! کچلیوں والا درندہ حلال نہیں ہے اور نہ گھریلو گدھا اور نہ ذِمی کی گری پڑی چیزمگر اس صورت میں کہ جس کی چیز ہے وہ اُس سے بے نیاز ہو جائے ،اور جو آدمی کسی قوم کا مہمان بنا اور انہوں نے اُس کی ضیافت نہیں کی تو اُس کے لئے درست ہے کہ میزبانی کے بقدر اُن سے وصول کرے (سنن ابي داود ، حدیث نمبر4604 ، السنن الکبریٰ للبیہقي، حدیث نمبر19469،صحیح ابن حِبان، حدیث نمبر 12 )، اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ’’رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہر کچلیوں والے درندے اور ہر پنجوں والے پرندے سے (یعنی کھانے سے) منع فرمایا‘‘ (صحیح مسلم، باب تحریم أکل کل ذي ناب من السباع وکل ذي مخلب من الطیور، حدیث نمبر 1934) اب غور فرمائیں قرآن کریم نے کھانے والی جو حرام چیزیں بیان کی ہیں ان کے اندر مُردار، بہنے والا خون، خنزیر کا گوشت اور غیر اﷲ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور جیسی چند چیزوں کا ذکر ہے لیکن حدیث شریف نے کچلیوں سے شکار کرنے والے جانور کو حرام قرار دے کر شیر ، چیتے ، گیدڑ اور دوسرے درندوں کا حرام ہونا بتا دیا (کچلیاں اُن دانتوں کو کہاجاتا ہے جو درندوں کے مُنہ میں قدرے لمبے اور نوکیلے ہوتے ہیں)، اسی طرح پنجے سے شکار کرنے والے پرندوں کے حرام ہونے کا قانون پیش کرکے باز، شکرہ، اُلو، چیل اور گدھ وغیرہ کو حرام قرار دے دیا نیز گھریلو گدھے کا حرام ہونا بھی حدیث میں بیان کیا گیا ، وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اسی کو حرام سمجھیں گے جس کا حرام ہونا قرآن نے بیان کیا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ گیدڑ، لومڑ، کُتے، چیل اور گدھ وغیرہ کا گوشت کھایا کریں کیونکہ ان کی حرمت تو حدیث نے بیان کی ہے قرآن نے نہیں ، اسی طرح قرآن کریم نے تو مطلقاً ہر مرد وعورت کو بلا ناغہ نماز اور روزے کا حکم دیا ہے، لیکن نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث نے بتایا کہ حیض اور نفاس والی عورت کو جب تک وہ پاک نہ ہوجائے نماز سے مکمل رخصت دے دی گئی ہے، اور اس حالت میں رمضان کے روزے بھی نہیں رکھے گی بلکہ بعد میں قضاء کرے گی ، کیا ایک عورت کو بچے کی پیدائش کے بعد تقریباً چالیس دن تک اور ہر مہینے میں حیض کے چھ سات دنوں کے لئے نماز معاف کردینا نیز رمضان کے مہینے میں روزے رکھنے سے منع کردینا ایک معمولی حکم ہے؟قرآن کریم میں تو صرف نماز قائم کرنے، زکوٰۃ وحج اداکرنے کا حکم ہے لیکن نمازوں کی رکعات اور ادائیگی کی تفصیل کہاں سے ملے گی؟ زکوٰۃ کی تفصیل کے لئے کس طرف رجوع کیا جائے گا؟ حج وعمرہ کی ادائیگی کا طریقہ کہاں ملے گا؟ مختلف صحابہ کرام ؓ روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا کہ:یا ایہا الناس کُتبَ علیکُم الحج……اے لوگو تم پر حج فرض کیا گیا ہے ، تو کسی نے پوچھا کہ :اے اﷲ کے رسول کیا ہرسال حج کرنا فرض ہے؟ تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم خاموش رہے (یعنی کوئی جواب نہ دیا) لیکن سوال کرنے والے نے متعدد بار یہی سوال دُہرایا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: لو قُلتُ نَعم لوَجَبت …… اگر میں ’’ہاں‘‘ کہہ دوں تو پھر ہر سال کرنا واجب ہوجاتا، اور اگر ایسا ہوجائے تو تم اس پر عمل نہیں کرسکوگے، لہذا حج (زندگی) میں ایک ہی بار فرض ہے …… الی آخر الحدیث (سنن نسائی، حدیث نمبر 2619 اور 2620 ،سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر:2885 وغیرہا من الکتب) غور فرمائیں! سوال ہوتا ہے کہ کیا ہر سال حج کرنا ضروری ہے؟ تو جواب میں فرمایا جاتا ہے کہ اگر میں ’’ہاں‘‘ کہہ دوں تو پھر ہر سال کرنا ضروری ہوجائے گا ، یعنی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ’’ہاں‘‘ سے ایک چیز واجب ہوسکتی ہے، نیز قرآن کریم نے تو صرف یہ فرمایا ہے کہ ہر صاحب استطاعت پر حج فرض ہے، قرآن کریم میں یہ نہیں کہ صرف ایک بار فرض ہے ، لیکن نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ حج زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے۔
آج وہ آدمی جسے یہ تک نہیں پتہ کہ صحیح بخاری کا کون سا باب کس کتاب میں ہے صحیح بخاری پر تنقید کرنا شروع کردیتا ہے، اور احادیث کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیتا ہے ، کبھی کہتا ہے کہ عجمی منافقوں نے کتب حدیث میں جھوٹی حدیثیں ٹھونس دی جن کا ان کتابوں کے جامعین کو علم نہ تھا ،کبھی کہتا ہے کہ حدیث کی صرف اس بات کو ماننا ضروری ہے جس کا ذکر قرآن میں ہو ، ایسی باتیں کرنے والے وہ حضرات ہیں جنہیں اس بات کا علم نہیں کہ کتب حدیث کے جامعین خاص طور پر مصنفین کتب ستہ (جنہیں صحاح ستہ بھی کہا جاتا ہے) جس طرح اپنی نقل کردہ روایات کی مکمل سند بیان کرتے ہیں بالکل اسی طرح یہ کتب حدیث بھی آج تک سند کے ساتھ امت میں پڑھائی جارہی ہیں، مثال کے طور پر ہر شیخ الحدیث جو صحیح بخاری کا درس دیتا ہے اس کے پاس امام بخاریؒ تک مکمل سند ہوتی ہے ، ان ناقدین کو اسلام کی امتیازی خصوصیت ’’علم الرجال‘‘ کی حقانیت کا بھی اندازہ نہیں ، اسلام کی اس خصوصیت کا اقرار تو مغربی اور یورپی سکالر بھی کرچکے ہیں ، علامہ سید سلیمان ندوی ؒ (متوفی 1373ھ) نے کیا خوب فرمایا:
’’تمام دنیا متفق ہے کہ اسلام نے اپنے پیغمبرصلی اﷲ علیہ وسلم کی اور نہ صرف اپنے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلمکی بلکہ ہر اُس چیز کی اور ہر اُس شخص کی جس کا ادنیٰ سا بھی تعلق آپصلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات مبارک سے تھا جس طرح حفاظت کی ہے وہ عالَم کے لئے مایہ حیرت ہے ، ان لوگوں کو جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور متعلقات زندگی کی روایت، تحریراور تدوین کا فرض انجام دیتے تھے راویانِ حدیث وروایت یا محدثین یا ارباب سِیَر کہتے ہیں ، جن میں صحابہ ؓ ، تابعین ؒ ،تبع تابعینؒ اور بعد کے چوتھی صدی ہجری تک کے اشخاص داخل ہیں ، جب تمام سرمایہء روایت تحریری صورت میں آگیا تو اِن تمام راویوں کے نام ونشان، تاریخ، زندگی ، اخلاق وعادات کو بھی تحریر میں لایا گیا جن کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے اور ان سب کے مجموعہ احوال کا نام ’’اسماء الرجال‘‘ ہے ، مشہور جرمن ڈاکٹر اسپرنگر جو سنہ1854ء اور اس کے بعد تک ہندوستان کے علمی وتعلیمی صیغہ سے متعلق تھے اور بنگال ایشاٹک سوسائٹی کے سیکرٹری تھے اور ان کے عہد میں خود ان کی محنت سے واقدی کی مغازی، وان کریمر کی ایڈیٹر شپ میں سنہ 1856ء میں طبع ہوئی اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے حالات میں حافظ ابن حجر رحمتہ اﷲ علیہ کی الاصابۃ فی احوال الصحابۃ طبع ہوئی اور جنہوں نے (جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ پہلے یورپین شخص ہیں جس نے خاص ابتدائی عربی مأخذوں سے) ’’لائف آف محمد‘‘ لکھی ہے اور مخالفانہ لکھی ہے ، وہ بھی اصابہ کے عربی مقدمہ مطبوعہ کلکتہ سنہ 1853ء – 1864 ء میں لکھتے ہیں ’’کوئی قوم دنیا میں ایسی گذری ، نہ آج ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال کا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصوں کا حال معلوم ہوسکتاہے‘‘۔
(خطبات مدراس، تیسرا خطبہ ، صفحہ 50 – 51 ، مجلس نشریات اسلام کراچی)
الغرض! بتانا یہ مقصود ہے کہ حدیث مبارکہ بنفس نفیس حجت ہے اور منکرین حدیث کا یہ کہنا کہ حدیث کے مضمون کو قرآن کریم پر پیش کیا جائے ، اگر تو وہ مضمون قرآن میں بھی موجود ہو تو اُسے قبول کیا جائے اور اگر وہ بات قرآن میں مذکور نہ ہو تو اُسے رد کردیا جائے یہ ایک باطل اور بے بنیاد قانون ہے، اسی طرح یہ کہنا کہ نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کا قرآن کریم میں کوئی ذکر نہیں صرف احادیث میں یہ باتیں بیان ہوئی ہیں لہذا ان چیزوں کے انکار سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ ایک گمراہی اور دھوکہ ہے ، ہاں اگر کسی حدیث کی صحت پر علم اصول حدیث کی رُو سے کچھ کلام ہے تو وہ اور بات ہے ، اصل میں ساری خرابی اور فساد اس وقت شروع ہوتاہے جب اپنی رائے اور اپنی عقل کو وحی پر مقدم رکھا جائے ، شریعت کو اپنی خواہش کے تابع سمجھا جائے اور نقل کے مقابلے میں عقل کو ترجیح دی جائے ، ایک مفروضہ بنا کر پھر احادیث پر اس سوچ کے ساتھ تنقید کی جائے کہ احادیث میں شکوک وشبہات پیدا کرکے لوگوں کو اپنے بنائے ہوئے مفروضے کی طرف لایا جائے ۔
حدیثِ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اہمیت اور ائمہ وعلماء امت
اب ہم حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں چند ائمہ اہل سنت کے اقوال پیش کرتے ہیں : ۔
حضرت امام احمد بن حنبلصلی اﷲ علیہ وسلم (متوفی 241ھ) فرماتے ہیں :
’’من ردَّ حدیثَ رسولِ اللّٰہصلی اﷲ علیہ وسلم فہو علی شفا ہلکۃ‘‘ جس نے بھی اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کو رد کیا (یعنی نہ مانا) وہ ہلاکت کے دہانے پر ہے ۔
(سیر اعلام النبلاء ، جلد 11 صفحہ 297/طبقات الحنابلۃ، جلد 3 صفحہ 28 )
امام موفق الدین بن قدامہ مقدسی رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی 620ھ)لکھتے ہیں :
’’ویجب الایمان بکل ما أخبر بہ النبیصلی اللّٰہ علیہ وسلم وصح بہ النقل عنہ فیما شاہدناہ او غاب عنا ، نعلم أنہ حق وصدق وسواء في ذلک ما عقلناہ وجہلناہ ولم نطلع علی حقیقۃ معناہ……‘‘ ہر اس بات پر ایمان لانا واجب ہے جس کی خبر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دی اور جو صحیح طریقے سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلمسے منقول ہے ، چاہے وہ خبر ان امور کے بارے میں ہو جنہیں ہم نے دیکھا یا ان چیزوں کے بارے میں ہو جو ہم سے غائب ہیں ، ہم یہ جانتے ہیں کہ وہ حق اور سچ ہے ، چاہے وہ چیز ہماری سمجھ میں آتی ہو یا اس کی حقیقت ہماری سمجھ میں نہ آتی ہو (اس پر ایمان لانا ہر صورت میں واجب ہے) ۔ (لمعۃ الاعتقاد ، صفحہ 28، المکتب الاسلامی، بیروت)
امام شافعی رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی 204ھ) فرماتے ہیں :
’’اذا حدَّث الثِّقۃُ عن الثِّقۃ حتی ینتہي الی رسول اللّٰہصلی اﷲ علیہ وسلم فہو ثابت عن رسول اللّٰہصلی اﷲ علیہ وسلم ولایُترک لرسولِ اللّٰہ حدیث ابداً ، الا حدیث وُجد عن رسول اللّٰہصلی اﷲ علیہ وسلم حدیث یخالفہ ……‘‘ جب ایک ثقہ راوی دوسرے ثقہ سے حدیث بیان کرے اور اسی طرح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تک ساری سند ہو (یعنی سب راوی ثقہ ہوں) تو یہ حدیث اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کوئی حدیث ہرگز ترک نہیں کی جائے گی ، سوائے اس حدیث کے جس کے مخالف کوئی دوسری حدیث بھی پائی جائے (تو ایسی صورت میں دونوں حدیثوں کے درمیان تطبیق یا ترجیح وغیرہ دی جائے گی۔ناقل)۔
(المدخل الی السنن الکبریٰ للبیہقی، جلد 1صفحہ 34 ، السعودیۃ)
امام ابو الحسن اشعری رحمتہ اﷲ علیہ (متوفی 324ھ) محدثین اور اہل سنت کے عقائد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’جملۃ ما علیہ اہل الحدیث والسنۃ الاقرار باﷲ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ وماجاء من عند اﷲ وما رواہ الثقات عن رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم لا یردّون من ذلک شیئاً……‘‘ حدیث اور سنت والے کے عقائد ہیں ان میں اﷲ ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں اور جو چیز اﷲ کی طرف سے آئی ہے اس کا اقرارشامل ہے ، نیز جو بات اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے ثقہ راویوں نے بیان کی ہے اس میں سے کسی بات کا انکار نہیں کرتے ۔
(مقالات الاسلامیین واختلاف المصلین، صفحہ 290، طبع بیروت )
امام ابن حزم ظاہری رحمتہ اﷲ علیہ(متوفی 456ھ) رقمطراز ہیں :
’’فاذا جاء خبر الراوي الثقۃ عن مثلہ مُسنداً الی رسول اللّٰہصلی اﷲ علیہ وسلم فہو مقطوع بہ علی أنہ حق عند اﷲ عزوجل موجب صحۃ الحکم بہ اذا کان جمیع رواتہ متفقاً علی عدالتہم أن ممن تثبت عدالتہم……‘‘ جب کسی حدیث کی سند نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تک ثقہ راویوں پر مشتمل ہو تو وہ قطعی طور پر اﷲ کے نزدیک حق ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہے جب اس کے تمام راویوں کی عدالت پر اتفاق ہو اور ان سب کی عدالت ثابت ہو ۔
(النبذ فی اصول الفقہ، صفحہ 56، دار ابن حزم ، بیروت)
اور ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
’’ثبت یقیناً ان الخبرَ الواحدِ العدل عن من مثلہ مبلغاً الی رسولِ اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم حقٌ مقطوعٌ بہ موجبٌ للَعملِ والعِلمِ معاً‘‘ یہ بات یقینی طور پر ثابت شدہ ہے کہ ایک عادل راوی کی روایت اپنے جیسے عادل سے جو اسی طرح (عادل راویوں کے واسطے سے) اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم تک پہنچے وہ قطعی طور پر حق ہے اور علم وعمل دونوں کو واجب کرتی ہے ۔ (الاِحکام فی اُصول الاَحکام، جلد 1، صفحہ 124 ، دار الآفاق الجدیدۃ بیروت)
(جاری ہے)

21 thoughts on “احادیثِ نُزولِ عیسیٰ بن مریم علیہما السلام اور منکرین حدیث کے اعتراضات کا علمی جائزہ”

  1. Md gazzali says:

    Plz provide all link about nuzole Maryam al
    السلام علیکم جناب مجھے تمنا عمادی کے اعترضات پر تمام لنک ارسال کردو آپکا بہت شکریہ 7668676684 میرا واٹسپ نمبر ہے
    یا امیل کردیں mdgazzali954@gmail.com

  2. Md gazzali says:

    تلاش و جستجو کے بعد بھی مجھے تمام قسطیں نہیں مل سکی

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.