تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

شعیب ودود

کلمہ چوک ملتان سے رفاہ عام سکول کی طرف جائیں تو جلال باقری قبرستان کے ایک کونے سے یہ صد آتی ہے کہ اے دنیا داری میں پھنسے ہوئے، الجھے ہوئے اور چکرائے ہوئے انسان، تجھ سے ہزار گنا بہتر انسان اس قبرستان کی مٹی میں آسودہ خاک ہیں۔ یہ وہ عظیم لوگ تھے جو زمانہ ساز تھے اور اب ان قبروں کے مکین آن بنے ہیں کہ دن میں ان قبروں پر نور برستا ہے اور رات کو چادر مہتاب تنی ہوتی ہے اور ان کچی قبروں کا
طواف کرنے کو صبح بہار آتی ہے                 صبا چڑھانے کو جنت کے پھول لاتی ہے
یہ ہے احاطہ آخری آرام گاہ، سفر آخرت کی پہلی منزل امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کا مرقد مبارک اور ان کے اہل خاندان کی چند قبریں۔ ۱۷؍اپریل ۲۰۱۶ء بروز اتوار اس احاطہ میں ایک اور قبر کا اضافہ ہوا۔ پروفیسر حافظ سید محمد وکیل شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔سید محمد وکیل شاہ بخاری ۹؍اکتوبر۱۹۳۰ء کو موضع دین پور عبدالحکیم ضلع خانیوال میں پیدا ہوئے پہلے حفظ قرآن کیا پھر پنجاب یونیورسٹی لاہو ر سے ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کرنے کے بعد ۱۹۵۹ء کو اوکاڑہ میں لیکچرار متعین ہوئے۔ ۱۹۸۰ء میں ملتان گورنمنٹ کالج سول لائن میں تبادلہ ہوا اور یہیں سے بطور اسسٹنٹ پروفیسر ریٹائر ہوئے ۱۹۵۲ء میں ان کی شادی امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ کی اکلوتی دختر نیک اختر سے ہوئی۔ یوں ایک شریف النفس اور متقی انسان ’’شاہوں‘‘ کے خاندان عالی قدر اور ذی وقار کا حصہ بن گئے۔ وہ خود بھی بخاری سید تھے اور ان کی شخصیت ان کا جلال و جمال بھی حسین و جمیل تھا۔ شاہ جی اور علماء و مشائخ کی صحبت کے انوار و اثرات ان کی سیرت سے جھلکتے تھے۔ نماز کی پابندی، تہجد، تلاوت قرآن، اپنوں اور غیروں سے حسن سلوک، دیانت و شرافت اور رزق حلال کا اہتمام خاص ان کی شخصیت کے نمایاں ا وصاف تھے اور پھر یہی عادات و صفات ان کی نیک سیرت اولاد میں بھی مکمل طور پر منتقل ہوئیں۔ وہ زمانہ ساز علماء اور بزرگوں کی صحبت وزیارت کا شرف پاتے رہے۔ مولانا سید حسین احمد مدنی، شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا، حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری او ررئیس الاحرارمولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کا شرف زیارت حاصل کیا مولانا محمد علی جالندھری، مولاناقاضی احسان احمد شجاع آبادی اور مولانا مفتی محمود رحمہم اﷲ سے گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ ایسی عظیم اور جلیل القدر ہستیوں کی صحبت کا میسر آنا ہی ان کے لیے بڑے نصیب کی بات تھی۔ وہ اکثر و بیشتر میرے نانا جان ملک عبدالغفور انوری ؒکے ساتھ روز مرہ بنیادوں پر ملتے اور کاروبار زندگانی کے اہم فیصلوں کے بارے میں ان سے مشاورت کرتے۔ میرے والد محترم قاری عطاء اﷲ مرحوم سے بھی ان کا یارانہ تھا، نماز عصر سے لے کر نماز مغرب تک دونوں دوست جامعہ خیر المدارس کی وسیع و عریض مسجد کے باہر بیٹھ کر حالات حاضرہ پر بحث کرتے۔ سید ذوالکفل بخاری شہید کے ہمراہ میں جب اپنے بچپن او رلڑکپن میں ان کے ہاں کھیلنے کے لیے جاتا تو وہ ایک مشفق چچا کی طرح ہم دونوں کے لیے کھیلوں کے سامان کا اہتمام کرتے تھے۔ بچوں کے لیے وہ بہت شفیق اور شگفتہ مزاج تھے جبکہ محکمہ تعلیم کے بد دیانتوں کے لیے وہ بڑے گرم مزاج تھے۔
خاکی و نوری نہاد بندۂ مولا صفات                                   ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل                                         اس کی ادا فریب اس کی نگہ دل نواز
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو                                          رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز
وہ ریٹائرمنٹ کے بعد پہلے تعلیمی بور ڈ ملتان میں آفیسر رہے اور پھر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں کئی برس تک سکریسی آفیسر رہے وہ انتہائی دیانت دار، محنتی بھی اور بہت اچھے منتظم بھی تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے جو نوکری بھی کی وہ بورڈ اور یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کے پرزور اصرار مگر اپنی شرائط پر کی۔ انتہائی نڈر بہادر اوربے لوث وکیل شاہ جی نے ایسی مثالیں قائم کیں کہ اب ان کے ادارے رہتی دنیا تک انھیں یاد رکھیں گے۔ اگرچہ اچھے اور نیک لوگوں کی قدر نہ کرنا ہماری معاشرتی کمزوری ہے مگر انھوں نے زمانے کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی طویل تدریسی زندگی انتہائی ایمانداری اور شب و روز محنت مزدوری کے ساتھ بسر کی۔ بے ضرر اور صابر و شاکر انسان نے تقویٰ کے اعلیٰ معیار کو قائم رکھتے ہوئے ساری زندگی اتباع شریعت میں گزاری ۔ تعلیمی بورڈ اور یونیورسٹی بورڈ کا سکریسی آفیسر عمر بھر سائیکل پر اپنے دفتر جاتا رہا۔ انھوں نے بڑا نامی گرامی سسرال ہونے کے باوجود اپنا الگ سے ایک اعلیٰ تشخص بنایا۔ صرف عالم ہی نہیں وہ عالم باعمل تھے۔ ان کی خوب صورت اور خوب سیرت زندگی کا سفر مکمل ہوا اور وہ جنت کے لیے روانہ ہوگئے۔ ان کی سیرت اور کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ پورا معاشرہ عموماً اور دفتروں میں کام کرنے والے خصوصاً وکیل شاہ جی کی عملی زندگی کو مثال کے طور پر اپنا سکتے ہیں کہ محنت و مشقت، سچی لگن اور ایمانداری سے بھی زندگی کا قلیل سفر مکمل ہو سکتا ہے۔ ہمارے رول ماڈل ایسی ہی ہستیاں ہونی چاہئیں۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
(مطبوعہ: روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ملتان،۷مئی ۲۰۱۶ء)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.