تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

تبصرہ کتب

مبصر: صبیح ہمدانی

نام کتاب: شرح السرّ المکتوم ممّا أخفاہ المتقدّمون تالیف: مولانا عبد العزیز پرہارویؒ ترجمہ و تشریح: مولانا محمد ابو بکر قاسمی ضخامت: 464 صفحات قیمت: درج نہیں ناشر: مکتبہ قاسمیہ، عارف کمپنی چوک گھنٹہ گھر ملتان
حضرت مولانا عبد العزیز پرہاروی رحمہ اﷲ ایک متنوع الالوان صاحب علم شخصیت تھے۔ کم عمری اور جواں مرگ ہونے کے با وجود ان کے علمی کارنامے اور ان کی معلومات کی وسعت و گہرائی غیر معمولی طور پر عظیم الشان تھی۔ ان کی شخصیت کا ایک خاص پہلو یہ تھا کہ ان کو بہت سے نسبتاً غیر معروف اور غیر مروّج علوم کا گہرا مطالعہ حاصل تھا۔ یعنی حضرت مولانا مرحوم و مغفور کو جہاں عقائد و کلام، تفسیر و فقہ، منطق و فلسفہ اور طب و ہیئت پر گہری دسترس حاصل تھی وہیں نجوم و افلاک و تاثیرِ کواکب، تمائم و تعویذات، کیمیا و سیمیا جیسے داستانی اور دیو مالائی علوم و فنون سے بھی ان کی دلچسپی غیر معمولی تھی۔ بلکہ ان میں سے اکثر شعبوں میں وہ صاحبِ تصنیف بھی تھے۔
مولانا ابو بکر قاسمی ملتان کے ایک فاضل عالمِ دین ہیں اور انھیں دیگر علمی مشاغل کے ساتھ ساتھ وظائف و تعویذات وغیرہ سے بھی شناسائی ہے۔ بلکہ ان موضوعات سے ان کا شغف عالمانہ، اصولی اور فلسفۃ العلم کی سطح کا ہے۔ اس موضوع پر اس سے پہلے وہ حزب البحر کی شرح و طریقہ ہائے قرائت مع مؤکل اور حضرت شاہ ولی اﷲ رحمہ اﷲ کے رسالہ ہوامع کی شرح بھی تالیف کر چکے ہیں۔
زیرِ نظر کتاب کے عنوان کا لفظی مطلب ہے: وہ رازِ مخفی جسے اگلے علماء نے پوشیدہ رکھا۔ اس عنوان سے مشمولاتِ کتاب کا کسی قدر اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اسم با مسمّی ہونے کے اعتبار سے واقعتاًکتاب علم تمائم و تعویذات کے عجائب و غرائب پر مشتمل ہے۔البتہ ایک نکتہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ حضرت مولانا پرہاروی رحمہ اﷲ کا علمِ نجوم و تاثیراتِ کواکب کے حوالے سے ایک خاص موقف تھا، وہ اسبابِ طبعیہ مخلوقہ کے درجے میں نجوم و بروج و کواکب کی تاثیرات کے قائل تھے۔ یہ مسئلہ علما میں مختلف فیہ ہے۔ عامّۃ الناس کو عملیات وغیرہ کے ان دقائق میں راسخ فی العلم علماء کے مشورہ کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے۔
مولانا ابو بکر قاسمی مد ظلّہ نے اس کتاب کو بہت محنت سے ترجمہ و تشریح کرکے لباسِ اردو میں مزیّن و آراستہ کر کے پیش کیا۔ کتاب کی طباعت وکتابت اور سرورق وغیرہ عمدہ ہیں۔ البتہ عربی عبارات کے اعراب میں اغلاط کا تناسب کسی قدر زیادہ ہے، امید ہے آئندہ اشاعتوں میں اس کمی کو دور کر لیا جائے گا۔

نام کتاب: خطبات راشدی (جلد دوم) خطیب: مولانا زاہد الراشدی مدّ ظلّہ مرتّب: مولانا قاری جمیل الرحمن اخترؔ
ضخامت: 370 صفحات قیمت:درج نہیں ناشر: الشریعہ اکیڈمی، گوجرانوالہ۔
مولانا زاہد الراشدی مدّ ظلّہ معاصر اہل فکر میں اپنے موضوعات کے اختصاص، اپنے اسلوب کی دل نشینی، اپنے افکار کے ربطِ باہمی اور امت کی سطح پر اجتماعیات سے اپنی گہری دل چسپی کی بنیاد پر امتیازی مقام کے حامل ہیں۔ نظریات کی جنگ کے اس زمانے میں انھوں نے اپنے مورچے کو کبھی خالی نہیں چھوڑا بلکہ ہمیشہ غنیمِ وقت کو اپنی موجودگی کا احساس کرایا۔اسلام اور مغرب کے تہذیبی معرکے میں وہ ملّت اسلامیہ پاکستان کے صفِ اوّلین کے متکلموں میں شمار ہوتے ہیں۔
زیرِ نظر کتاب راشدی صاحب کے خطبات پر مشتمل سلسلہ کی جلدِ دوم ہے، جسے مولانا قاری جمیل الرحمن اختر مدّ ظلّہ نے مرتّب کیا ہے۔خطابت کا میڈیم جسے معاصر علما نے اجتماعی طور پر نسبتاً غیر اہم اور غیر مفید سمجھا ہوا ہے، ہمارے ممدوح راشدی صاحب ابھی تک سنجیدہ مباحث کے بیان کا اہم ذریعہ اظہار کے لیے اس میڈیم کو اختیار کرتے ہیں۔ بارگاہِ الٰہی سے انھیں مختصر اور موجز کلمات میں پر مغز اور عمیق باتیں مربوط انداز میں کہنے کی غیر معمولی صلاحیت سے نوازا گیا ہے۔ چنانچہ ان کے خطبات اور ان کے مضامین یکساں رنگ کے لطف کے حامل ہوتے ہیں۔حضرت مولانا کو لا تعداد بار مغربی معاشرت کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، وہ ان سطور کے راقم کے لیے مشائخ کے درجے میں ہیں، اور یہ ہیچ مدان اُن کی ژرف نگاہی کا از بس قائل ہے، لیکن ان خطبات و مضامین میں ان کا مشاہدہ مغرب بظاہر (خاکم بدہن) بہت سطحی اور سرسری محسوس ہوتا ہے۔
مغرب کے محاسن (جن کے محاسن ہونے پر خود مغرب کے اہلِ دانش متّفق نہیں) کو اسلامی تاریخ سے سند فراہم کرنا اپنی نہاد میں اسی طرزِ عمل کا جڑواں بھائی جسے سرسیّد احمد خان بہادر نے اپنی تحریر و تعلیم کے ذریعے سے رائج کیا تھا۔ بعض مظاہر میں انتہائی بیرونی سطح کی جزوی مماثلت دو تہذیبوں کے جوہری اختلافات کو فراموش کرنے کے لیے کافی نہیں ہوا کرتی۔ اور ایک بات یہ بھی ہے کہ وہ طرزِ عمل جسے امّت مسلمہ زمانے کے جبر کے ماتحت اختیار کرتی ہے وہ ہر گز اجتہادِ فقہی کے متساوی نہیں۔
بہر آئینہ! حضرت مولانا راشدی صاحب کی زمانہ شناس صاحب علم و فضل شخصیت کے مربوط و مرتکز افکار کو جاننے اور ان سے بقدر واجب استفادہ کرنے کے لیے زیرِ نظر کتاب ایک بنیادی مأخذ ہے۔ اور فاضل مرتّب و ناشر علم و فکر کی اس خدمت پر مستحقِّ شکر۔
lنام کتاب: انوارِ حق افادات: مولانا انوار الحق مدظلہٗ بہ اہتمام ونگرانی: مولانا عبد القیوم حقانی
ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، خالق آباد نوشہرہ
اسلام کی اشاعت میں ان علماء کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے جنھوں نے اپنی تدریس و تقریر سے عامۃ الناس میں علم دین پھیلایا اور علم و عرفان کی قندیلیں ابھی تک جلارہے ہیں، دعوت اصلاح و ارشاد کے بہت سے وسائل اور اسالیب ہیں، ان ہی میں سے ایک مؤثر ذریعہ دروس و خطابت کا ہے بقول مولانا آزاد ’’خطابت دنیا کا سب سے قدیم ذریعہ ابلاغ ہے‘‘ زیر نظر کتاب ’’انوار حق‘‘ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو مولانا انوارالحق مدظلہٗ کے۳۵مختلف علمی و تحقیقی خطبات کا نادر مجموعہ ہے جو انھوں نے دارلعلوم حقانیہ کی قدیم مسجد میں خطبہ جمعہ کے طور پر ارشاد فرمائے۔ اندازِ خطابت سادہ ودلنشین ہے اور رسمی گردان بازی سے اجتناب بھی ہے۔ کتاب موصوف سیرت نبویہ، صحابہ کرام، سلف صالحین کے مؤثر واقعات، حیرت انگیز حکایات اور ایمان افروز سرنوشت کا حسین مرقع ہے۔ اسلامی و علمی خطبات کی فہرست کتب میں گراں قدر اضافہ ہے۔
lنام کتاب: ساعتے با اہل حق ضبط و ترتیب: مولانا حبیب اﷲ شاہ حقانی ضخامت:۵۷۲ صفحات
ناشر: القاسم اکیڈمی جامعہ ابوہریرہ خالق آباد نوشہرہ
انسان کے دل میں ہر وقت مختلف قسم کے خیالات اور جذبات ابھرتے اور ڈوبتے رہتے ہیں یہی جذبات و خیالات جب کسی کام کا تانا بانا بنتے ہیں تو وہ نیت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور جب نیت اپنے اعضاء و جوارح کو عملی جامہ پہنانے پر پوری طرح چوکس کردیتی ہے تو یہ عزم کہلاتا ہے، اگر انسان کے دل میں خیالات و جذبات، ایمان اور عمل صالح کے تحت اپنا تانا بانا بنتے اور باہر نکل کر کچھ کرنے کے لیے مچلتے ہیں تو انسان کی زبان سے خیر بھرے الفاظ کا اخراج ہوتا ہے۔ پیش نظر کتاب ’’ساعتے بااہل حق‘‘ شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق، مولانا عبدالقیوم حقانی اور دیگر حضرات کے درمیان ہونے والی گفتگو، خیر بھرے الفاظ کا حسین امتزاج اور دلچسپ مکالمات کا مجموعہ ہے۔ علم و ادب سے تعلق رکھنے والے علماء، طلبہ اور ذوق مطالعہ رکھنے والے سکول و کالج کے اساتذہ اور سٹوڈنٹس کے لیے ایک بیش بہا خزینہ ہے، کتاب مختلف پہلوؤں سے قابل استفادہ ہے کتاب کا شائستہ اسلوب اور ادیبانہ انداز مطالعہ سے اکتانے نہیں دیتا۔
lنام کتاب: کعبہ مرے آگے مؤلف:مولانا عبد القیوم حقانی ضخامت:۴۱۶ صفحات
ناشر: القاسم اکیڈمی جامعہ ابوہریرہ خالق آباد ضلع نوشہرہ
اردو ادب میں سفرناموں کو ایک مخصوص صنف کا درجہ حاصل ہے کیونکہ سفرنامہ علمی وادبی اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور یہ وہ صنف ادب ہے جس کا تقریباً تمام معاشرتی علوم سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ سفر ناموں کی طرز نوشت بھی دوسری تحریروں سے مختلف ہوتی ہے، کچھ سفر نامے تاثراتی تو کچھ معلوماتی ہوتے ہیں۔ جزیرۃ العرب کے سفرنامے زیادہ تر حج وعمرہ کے حوالے سے منظر عام پر آتے ہیں ان میں بعض کیفیاتی طرز کے ہوتے ہیں اور بعض میں علمی و ادبی رنگ جبکہ کچھ میں عشقِ رسول و محبت رسول کا پہلو نمایا ہوتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’کعبہ مرے آگے‘‘ حرمین شریفین کے مختلف اسفار پر لکھی گئی ایمانی حلاوت اور عشق رسول کی حرارتوں سے معمور طرز تحریر کا نادر مجموعہ ہے۔ مرزا غالب کی غزل کا مصرعہ ’’کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے‘‘ کومدنظر رکھتے ہوئے انوارِ حرم پر مشتمل سفر نامہ کا نام ’’کعبہ مرے آگے‘‘ تجویز فرمایا۔ آغاز کتاب میں منظوم تاثرات نے بھی کتاب کو چار چاند لگادیے ہیں۔
lنام کتاب: دُررِ فرائد ترجمہ و تشریح جمع الفوائد مترجم: حضرت مولانا عاشق الٰہی میرٹھی رحمہ اﷲ ضخامت: ۲۸۸ صفحات
زیرا ہتمام و نگرانی: شیخ الحدیث مولانا عبدالقیوم حقانی ناشر: القاسم اکیڈمی جامعہ ابوہریرہ خالق آباد نوشہرہ
قرآن حکیم کے بعد شریعت اسلامیہ کا بڑا ماخذ احادیث رسول ہیں، صحابہ و تابعین اور آئمہ محدثین نے جیسے قرآن حکیم کو اپنے سینوں میں محفوظ کیا۔ اسی طرح احادیث نبویہ کو اپنے منور سینوں میں جگہ دی، تعلیم و تدریس اور تحریر و تالیف کے ذریعے اس قدر مامون و محفوظ کیا کہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے احادیث رسول تک کی رسائی کو ممکن اور آسان بنادیا جو امت پر محدثین کا بہت بڑا احسان ہے۔ زیر نظر کتاب ’’دُررِ فوائد‘‘ علامہ محمد بن سلیمان دوانی (المتوفی ۱۰۹۴ھ) کی تالیف ’’جمع الفوائد‘‘ جو چودہ کتب احادیث پر مشتمل ہے کی شرح اور سلیس ترجمہ ہے۔ ترجمہ و تشریح کی یہ سعادت مولانا عاشق الٰہی میرٹھی کو حاصل ہوئی ہے جو برصغیر کے نامور علماء اور مشائخ میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ دُررِ فوائد ان کی تاریخی، علمی یاد گار اور عظیم صدقۂ جاریہ ہے۔ زیر نظر کتاب فتنوں کا بیان، قرب قیامت کی علامات، امام مہدی کا ظہور، خروج دجال، نزولِ عیسیٰ، صورِ اسرافیل، جنت دوزخ کا منظر، حوض کوثر کا بیان اور دیدار الٰہی کا منظر جیسے موضوعات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ دُررِ فوائد کے چھ اہم ابواب کا انتخاب اصل حدیث مع ترجمہ وتشریح کی سعادت القاسم اکیڈمی کو حاصل ہوئی ہے۔ یہ کتاب اپنی غایت درجہ علمی کی افادیت کے پیش نظر بہت اہمیت کی حامل ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.