تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

تاریخ کے دو سبق …… جواب آں غزل

محمود حجازی

29؍مئی 2016ء کو روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ میں معروف کالم نگار جاوید چودھری کا کالم بعنوان ’’تاریخ کے دو سبق‘‘ نظر سے گزرا۔ اس کالم کے بنیادی نکات اور مندرجات ، ٹیڑھے ترچھے زاویہ نگا، عجیب و غریب استدلال ، الٹی سیدھی تاویلات اور برخود غلط منطقی موشگافیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
موصوف نے مطالعۂ تاریخ کے مسلمہ اصولوں کو پس پشت ڈال کر تاریخ کے نام پر تاریخ کے موضوع سے جو کھلواڑ کیا ہے وہ آنجناب کے یک رخے پن، جانبدارانہ رویے اور من مانی تعبیرات و تفہیمات کا شاہکار ہے۔ ان کے اس مطالعاتی تجزیے کونہ معروضی ، نہ موضوعی ، نہ انعکاسی ، نہ فلسفیانہ اور نہ ہی عالمانہ قرار دیا جاسکتاہے بلکہ یہ سطحی اصل حقائق کے برعکس اور Logic Fallacy یا منطقی تغلیط پر مبنی نظر آتا ہے۔تاریخ کا علم جتنا متنوع و ہمہ گیر ہے اتنا ہی اس کی مقتضیات و لوازمات دقت طلب ہیں۔ نہ تویہ اندازوں اور قیاسوں کا کھیل ہے اور نہ ہی یہ ہرکس و ناکس کے بس کاروگ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مشہور انگریز ادیب میتھیو آرنلڈ کہتا ہے کہ ’’تاریخ جھوٹ کا وسیع دریا ہے۔‘‘
اور امریکہ کے سب سے بڑے مورخ ول ڈیورنٹ کی رائے کے مطابقMost history is guessing and rest is prejudice یعنی زیادہ تاریخ اندازے پر مبنی ہے اور باقی تعصب پر۔تاریخ کے حوالے سے سب سے متوازن اور عام فہم رائے مورخ اسلام علامہ سید سلمان ندوی رحمتہ اﷲ علیہ نے 1944ء میں آل انڈیا ہسٹری کانفرنس مدراس میں خطبہ صدارت ارشاد فرماتے ہوئے دی تھی۔
’’تاریخ ایک کچی دھات ہے اس کچی دھات کو مختلف مسالوں سے جوڑ کر جیسی شکل آپ بنانا چاہیں ، بناسکتے ہیں اور اپنی ہمدردی اور بے دردی سے جس طرح چاہیں رنگ کرکے دکھا سکتے ہیں۔ دو تین جزوی باتوں کو ملاکر کلیہ بنالینا اس فن کا آج کل سب سے آسان چٹکلہ ہے۔‘‘
اس تمہید کے بعد ہم زیربحث کالم کے متنازعہ فیہ نکات پر بحث و تمحیص اور غور و خوض کرتے ہیں تاکہ اس سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں اور فکری ونظری التباسات (Illusions) کا توڑ کیا جاسکے۔بقول مولانا ظفر علی خان ……
ضبط کروں میں کب تک آہ                         چل میرے خامہ بسم اﷲ
اس کالم کا لب لباب یہ دو نکات ہیں۔
(1 یہ انسان کی دس ہزار سالہ ریکارڈ ہسٹری کا پہلا سبق ہے کہ تاریخ میں آج تک کوئی ملٹری گورنمنٹ نہیں چل سکی۔
(2 تاریخ کا دوسرا سبق یہ ہے کہ انسان کی دس ہزار سال کی ریکارڈ ہسٹری میں آج تک کوئی مذہبی ریاست بھی نہیں چل سکی۔
اب اس میں پہلا نکتہ ہمارے موضوع سے متعلق نہیں البتہ اتناعرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلام آمریت یا ظلم و جبر کی بناء پر حکومت کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ اس سلسلے میں خلیفۂ راشد چہارم سیدنا علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا یہ قول فیصل ہے کہ ’’حکومت کفر کے نظام کی بناء پر تو چل سکتی ہے مگر ظلم کی بنیاد پر نہیں۔‘‘
جب کہ دوسرا نکتہ صرف حد درجہ متنازع اور اختلافی ہی نہیں بلکہ حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔اس کالم کی بوالعجمی یہ ہے کہ اس میں نیک سیرت بادشاہوں اور مسلم حکمرانوں کو ظالم و جابرغیر مسلم آمر حکمرانوں کی صف میں لاکھڑا کیا گیا ہے۔موصوف سکندر اعظم کی حکومت اور اس کے زوال پر طائرانہ نگاہ ڈال کر چنگیز خان ، ہلاکو خان ، امیر تیمور اور ظہیر الدین بابر کا تذکرہ کرتے ہوئے اورنگزیب عالمگیر کی مثال بھی اسی ضمن میں پیش کرتے ہیں حالانکہ اورنگزیب عالمگیر برصغیر کا اسلامی اوصاف سے متصف حکمران تھا۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اﷲ علیہ کے فرزند ارجمند اور جانشین خواجہ محمد معصوم رحمتہ اﷲ علیہ سے ان کا قلبی ارادت کا تعلق تھا۔ علامہ اقبالؒ نے اورنگزیب رحمتہ اﷲ علیہ کے بارے میں کہا تھا:
میانِ معرکۂ کفر و دیں                         ترکش مالا خدنگ آخریں
اورنگزیب عالمگیر کا تذکرہ کرنے کے بعد نادر شاہ ایرا نی اور ہٹلر کی مثال دے کر کئی غیر مسلم اور مسلمان حکمرانوں کو ایک ہی فہرست میں شامل کردیا۔ مثلاً اشوک اعظم ، ذوالقرنین، سلطان صلاح الدین ایوبی، عبدالرحمن اوّل، خوارزم شاہ ، محمود غزنوی ، سلجوق ، شاہ سلیمان ، نپولین بوناپارٹ اور راجہ رنجیت سنگھ وغیرہ آج فارسی کا یہ مصرعہ با ربار میرے ذہن میں آرہا ہے کہ ……
گو فرق مراتب نہ کنی زندیقی
دوسرے لفظوں میں سب کو ایک لاٹھی سے ہانکنا کون سا انصاف ہے؟ اور اچھے برے کے درمیان فرق نہ کرنا یہ کون سی معقولیت و شرافت ہے۔ایسے ہی فاضل کالم نگار نے مذہب کے نام پر نہ چلنے والی ریاستوں کا تذکرہ کرتے ہوئے سب سے پہلے حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنتوں کا ذکر کیا ہے۔ اس غلط استدلال پر سر پیٹنے کو دل کرتا ہے کہ انسان زعم باطل میں اس قدر آگے چلا جاتا ہے کہ وہ اظہر من الشمس حقائق کو بھی جھٹلانے لگ جاتا ہے۔ موصوف کو اس ضمن میں ہمارا چیلنج ہے کہ وہ ایک مثال دنیا کی کسی معتبر اور مستند کتاب سے ثابت کریں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ ان دونوں جلیل القدر انبیاء کے دور حکومت میں ایک دن بھی کوئی خرابی واقع ہوئی ہو یا انہیں امور حکمرانی کی سرانجام دہی میں ایک لمحے کے لئے بھی کسی قسم کی معمولی سے معمولی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہو! یہ ایک چھوٹی سے چھوٹی مثال بھی اس سلسلے میں پیش نہیں کرسکتے۔ تو پھر ان کی سلطنتوں کو ناکام سلطنتوں میں شمار کرنا چہ معنی دارد؟ اسی طرح موصوف حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سلطنت کے آثار ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات پر بننے والی ریاستوں اور مہاتما بدھ کے مذہب پر تعمیر ہونے والی ریاست کا ذکر ختم ہوجانے والی ریاستوں میں کرنے کے بعد اسلامی ریاست کی تاریخ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مدینہ منورہ اسلامی ریاست کا دارالخلافہ ہوتا تھا۔
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ اسی شہر میں شہید ہوئے۔ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ بھی اسی شہر میں تلاوت کرتے ہوئے مسند شہادت پر فائز ہوئے۔ خلافت راشدہ کے ان تاجداروں کی شہادت کا تذکرہ ذومعنی انداز میں کیا گیا ہے حالانکہ موصوف اور اس قبیل کے دانشوری کے تمام دعویداروں کی خدمت میں عرض ہے کہ اسلام میں شہادت کی موت سعادت وفضیلت کی موت ہے۔ خود سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے لئے شہادت کی طلب کی۔
اس مقام پر سوال یہ نہیں بنتاکہ یہ خلفاء کرام شہید کیوں ہوئے بلکہ سوال یہ بنتا ہے کہ انہوں نے دین اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق حکومت کی۔ کیا ان کا دور حکمرانی عدل و انصاف، مساوات اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لحاظ سے مثالی تھا یا نہیں؟ آپ دنیا بھر کی حکومتوں اور نظام ہائے حکومت سے اس کا موازنہ کرلیں تو آپ پر حقیقت واضح ہوجائے گی کہ خلافت راشدہ کا اسلامی نظام پوری دنیا کے نظاموں سے ہرلحاظ سے ارفع و افضل تھا۔
اگر آپ کی بات کو مان لیا جائے کہ ملک مذہب کی بناء پر قائم نہیں رہ سکتے، سیکولر ازم کی بنیاد پر قائم رہ سکتے ہیں تو ہمارا سوال ہے کہ دنیا کی جمہوریتوں کی ماں کہلانے والا برطانیہ ایک زمانے میں جس کی حدود میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اب سمٹ کر محدود کیوں ہوگیا ہے؟ سیکولر ازم اس کی وسعت پذیری کو قائم کیوں نہ رکھ سکا؟ اور ابھی دو سال قبل سکاٹ لینڈ کیسے علیحدگی کے دہانے پر چلا گیا تھا۔ سیکولر ازم کے باوجود لوگ کیوں برطانیہ سے علیحدہ ہونا چاہتے تھے؟ اگر اس وقت غیر ملکی کمیونٹی خصوصاً چودھری سرور جیسے لوگ برطانیہ کی مدد کو نہ آتے تو وہ سکاٹ لینڈ سے جدا ہوچکا ہوتا۔
ایسے ہی مذہب کی مخالفت میں انتہائی حدود کو چھونے والا کمیونسٹ روس مذہب سے بالکل برگشتہ ہونے کے باوجود اپنی شیرازہ بندی کیوں نہ کرسکا۔ نوے کی دہائی میں اس سے گیارہ ریاستیں علیحدہ کیوں ہوگئیں؟ حالانکہ وہ توجدید ٹیکنالوجی اور دیگر وسائل کے لحاظ سے امریکہ کا مدمقابل اور حریف تھا مگر مذہب سے دوری اس کے شیرازے کو مجتمع نہ رکھ سکی تو اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ اور نعرہ انتہائی بے بنیاد اور لغو ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ریاستیں قائم نہیں رہ سکتیں حالانکہ ریاستوں کے ٹوٹنے اور جدا ہونے کے اسباب کچھ اور ہیں جبکہ مذہب نے تو اکثرمواقع پر ریاستوں کو جوڑنے کا کام کیا ہے فلسفہ تاریخ کے بانی علامہ ابن خلدون کی ریاست کے زوال کے بارے میں یہ رائے ہے ……
’’تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ ریاست کو بھی عروج حاصل ہوتا رہتا ہے لیکن جب انسانی تمدن میں تنزل آجائے اور لوگ تعیش اور سہل پسندی کے خوگر ہوجائیں تو اس کے ساتھ ہی ریاست کا تنزل شروع ہوجاتا ہے یعنی معاشرتی زندگی میں انحطاط ریاست کی تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔‘‘
پس نوشت -:
اب جبکہ راقم الحروف یہ سطور سپرد قلم کررہا ہے تو جاوید چودھری صاحب کا اسی موضوع سے متعلق ایک اور کالم بعنوان ’’تاریخ کا تیسرا سبق‘‘ 31 مئی کو میرے سامنے موجود ہے۔ یہ بنیادی طور پر پہلے کالم کا تتمہ اور ضمیمہ ہے مگر اس میں وہ اعتدال کی تمام حدود کو پھلانگ چکے ہیں۔
موصوف اس میں لکھتے ہیں کہ تاریخ کا تیسرا سبق یہ ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی اسلامی ریاست نہیں بنائی تھی۔ اسلامی معاشرہ تشکیل دیا تھا۔
ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اسے کیا کہئے                                         خامہ انگشت بدنداں ہے کہ اسے کیا لکھئے
´ یہ کیسی غلط بیانی ہے۔ یہ تو منصب نبوت سے لاعلمی کی انتہاء ہے۔ کیونکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات گرامی بطور حکمران کے بھی تمام دنیا کے حکمرانوں کے لئے کامل اکمل نمونہ ہے اور چودھری صاحب کا یہ کہنا کہ ریاست کے لئے قانون اور حکمران ہوتا ہے تو جناب قانون قرآن مجید کی صورت میں موجود تھا۔ قرآن دستور حیات بھی ہے اور قانون زندگی بھی اور قانون حکومت وحکمران بھی۔اور موصوف کایہ کہنا کہ خلفاء راشدین نے ادارے بنائے۔ بیورو کریسی بنائی تو جناب اسی میں ہمارے موقف کی تائید ہے کیونکہ خلفاء راشدین کی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ تھی اور اسی ضمن میں حدیث مبارکہ ہے کہ: ’’علیکم بسنتی و سنت الخلفاء الراشدین المہدین‘‘
ترجمہ: تم میں سے ہدایت یافتہ وہ ہے جو میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرے۔
قارئین! کالم نگار موصوف تو ریاست کولادین بنانے پر تلے ہوئے ہیں جب کہ مفکر پاکستان علامہ اقبال علیہ الرحمہ مذہب کو ریاست کا لازمی جزو قرار دیتے ہیں۔ وہ لادین کے سیاست میں بارے میں یہ درس دیتے ہیں۔
میری نگاہ میں ہے یہ سیاست لادیں                                             کنیز اہرمن ، دوں نہاد و مردہ ضمیر
٭……٭……٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.