تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

توہین رسالت قانون میں تبدیلی کے لیے علماء تیار نہیں

مرزا عبدالقدوس

 

توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کے لیے وزارت قانون نے ایک ڈرافٹ بنا کر وزارت داخلہ کو بھجوا دیا ہے، تاکہ تمام مسالک کے علماء سے رابطہ کر کے انھیں اعتماد میں لیا جائے۔ دوسری جانب تحفظ ناموس رسالت ایکٹ اور مقدمات سے وابستہ شخصیات نے ۲۹۵ سی میں کسی بھی ترمیم کو یکسر مسترد کردیا ہے اور کہا کہ کیا پاکستان میں صرف اسی قانون کا غلط استعمال ہورہا ہے۔ کیا علیٰ سیاسی اور سرکاری شخصیات اپنے عہدوں اور اختیارات کا غلط اور ناجائز استعمال نہیں کرتیں۔ کیا تعزیرات پاکستان کے تحت درج مقدمات میں غلط طورپر اپنے مخالفین کے خلاف قتل اور دیگر جرائم کے مقدمات نہیں کرائے جاتے۔ کیا زیر دفعہ ۳۰۲ قتل کے جو مقدمات درج ہوتے ہیں، اکثر اوقات ان کے تماملزم بری نہیں ہوجاتے۔
ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ توہین رسالت کا قانون ۲۹۵ سی جب سے بنا ہے اس وقت سے اب تک تقریباً ایک ہزار مقدمات درج ہوئے ہیں، لیکن کسی مقدمے میں کسی ملزم کو سزا نہیں ملی۔ اسی کو جواز بنا کر بعض طبقے جن کو علمائے کرام کی اکثریت اسلام دشمن سمجھتی ہے، کہتے آرہے ہیں کہ ۲۹۵ سی کا غلط استعمال ہوتاہے اور اکثر مقدمات میں بغیر کسی جرم کے اپنے مخالفین یا کسی دوسرے شخص سے انتقام لینے کے لیے توہین رسالت کا مقدمہ درج کرا دیاجاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ملزم مجرم ثابت نہیں ہوپاتا۔ دو دن قبل سینیٹر نسرین جلیل کی صدارت میں ہونے والے قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں جب ایک مقتول وکیل راشد رحمان کے کیس پر بات ہورہی تھی تو صدر نشین کے علاوہ بعض اراکین کی بھی یہ رائے تھی کہ اس قانون کے غلط استعمال کو روکنا ضروری ہے اور حکومت سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں اس سلسلے میں اقدامات کرے۔
توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کے حوالے سے ’’امت‘‘ نے مجلس احرار پاکستان کے مرکزی سیکریٹری جنرل عبداللطیف خالد چیمہ رابطہ کیا تا ان کا کہنا تھا کہ یہ خواہش اور ایجنڈے عالمی ہے۔ ہماری حکومتیں چونکہ ہمیشہ مغربی آقاؤں کے دباؤ میں ہوتی ہیں، اس لیے ادھر سے جو حکم آئے اس پر ہر ممکن طریقے سے عمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عبداللطیف خالد چیمہ نے کہا کہ تمام مسالک کے علمائے کرام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ گستاخی رسول کی یہ سزا ہے اور شریعت سے ثابت ہے۔ اسے متنازعہ بنانے کی ایک عرصے سے کوشش ہورہی ہے۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’جہاں تک اس قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے اسے تبدیل کرنے کا تعلق ہے تو کیا تعزیرات پاکستان کی ہر دفعہ خصوصاً دفعہ ۳۰۲ کا غلط استعمال نہیں ہوتا ۔ کیا اپنے مخالفین کو بلاوجہ مقدمہ قتل میں نہیں پھنسا یاجاتا تو اس دفعہ کو تبدیل کرنے کی بات کیوں نہیں کی جاتی ۔ تعزیرات پاکستان کی ہر دفعہ میں قانونی ماہرین کے مطابق غلطیاں موجود ہیں۔ اس پر قانونی ماہرین کا کوئی کمیشن بنا کر اسے ٹھیک کیوں نہیں کیا جاتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی بدنیتی پر مبنی ہے جس پر عمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عام مسلمانوں میں جتنی بھی کمزوریاں ہوں نبی آخر الزمان صلی اﷲ علیہ وسلم کی ناموس کے حوالے سے اس کے اندر بے پناہ وحمیت اور غیرت موجود ہے۔ اس قانون میں کوئی ترمیم جو دراصل اس قانون کو ختم کرنے کی سازش ہے، کامیاب نہیں ہونے دیں گے‘‘۔
تحفظ ناموس رسالت لائر فورم اسلام آباد کے چیئر مین راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ ملک کا تقریباً ہر با اختیار شخص اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کررہا ہے۔ جھوٹے قتل اور اقدام قتل کے مقدمات درج ہورہے ہیں۔ ہر سال سینکڑوں قتل کے ملزم باعزت بری ہوجاتے ہیں۔ ان قوانیں میں بہتری لانے کے بارے میں کیوں نہیں سوچاجاتا۔ عدالتیں لاکھوں مقدمات سے بھری پڑی ہیں، ہر روز جرائم ہورہے ہیں، لیکن سزائیں نہیں مل رہیں۔ کیا ان قوانین میں اصلاحات لانے کی ضرورت نہیں؟ راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’’ جو لوگ یا ایک خاص طبقہ اور ان کی ایک نمائندہ خاتون سینٹر نے بل پیش کیا تھا کہ توہین رسالت کے مجرم کی سزا صرف پانچ سالہ قید مقرر کی جائے تو اس کا مطلب یہی ہوا کہ انھوں نے تسلیم کیا کہ توہین رسالت کی جاتی ہے تب ہی مقدمات بنتے ہیں۔ جبکہ توہین رسالت کے بارے میں شرعی قوانین بالکل واضح اور دو ٹوک ہیں۔ جن کی تشریح ۲۹۵سی کے ذریعے کردی گئی ہے۔ اگر ہم شیری رحمان کی بات مان لیں تو پھر قتل کے بدلے قتل کی بجائے مقتول کے ورثا کو صرف یہ اختیار دینا چاہئے کہ آٹھ دس سال بعد قاتل پر جب جرم ثابت ہو جائے تو دوا سے چند تھپڑ مارلیں حساب برابر ہوجائے گا۔ اور مغرب اسی سمت بڑھ رہا ہے۔ جو سزائے موت کی بجائے اب عمر قید کی وکالت کررہا ہے۔ دراصل یہ ۲۹۵ سی کا توہین رسالت ایکٹ ختم کرنے کی سازش ہے۔ بنیادی طورپر اس میں ترمیم کی تجاویز دے کر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فدائین کے ایمان کا ٹیسٹ لیا جارہا ہے۔اگر کوئی مسلمان آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ناموس کا تحفظ نہیں کرسکتا تو میرے خیال میں اسے زندہ رہنے کا بھی حق نہیں یا وہ ایمان سے محروم ہوگیا۔ ہم ایسی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ راؤ عبد الرحیم ایڈووکیٹ نے کہا کہ نبی آخر الزمان صلی اﷲ علیہ وسلم کی ناموس کی (استغفر اﷲ) توہین کرانا اور کرنے والوں کا تحفظ کرنا ایک عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے اور اس ایکٹ میں ترمیم یا تبدیلی کی کوشش بھی مغربی آقاؤں کے احکامات کی روشنی میں ہورہی ہے۔
(مطبوعہ: روزنامہ ’’امت‘‘ کراچی، ۲۵؍دسمبر ۲۰۱۵ء)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.