تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

تاجکستان پولیس نے ۵۰ہزار مسلمانوں کی ڈاڑھیاں مونڈ دیں

احمد نجیب زادے

 

انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں تاجکستان حکومت خود بھی انتہا پسندی اور غیر انسانی حرکات پر اترآئی ہے۔ گزشتہ چھ ماہ میں تاجک صدر امام علی رحمانوف کے احکامات پر پولیس اور سیکورٹی اداروں نے ۵۰ ہزار مسلمانوں کی داڑھیاں مونڈ دیں۔ جبکہ اسکارف پہننے پر ۱۰ ہزار سے زائد خواتین کو سرعام تشدد کا نشانہ بنا کر گرفتار کیا جاچکا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تاجک پولیس اور سیکورٹی اداروں کی جانب سے مسلمانوں سے مسلمانوں کو گرفتار کر کے انھیں داڑھیاں مونڈنے کے احکامات دیئے گئے۔ لیکن مسلمانوں کی جانب سے داڑھی مونڈنے سے انکار کے بعد پولیس نے ۱۳؍ہزار مسلمانوں کو دوبارہ گرفتار کر کے حراستی مراکز میں زبردستی ان کی ڈاڑھیاں مونڈ ڈالیں۔ دوسری جانب مقامی اسلام پسندوں کا کہنا ہے کہ جن نوجوانوں اور معمر مسلمانوں کی ڈاڑھیاں مونڈی گئی ہیں ان کی تعداد ۱۳ ہزار نہیں بلکہ ۵۰ہزار سے زیادہ ہے۔ جبکہ اسکارف / حجاب پہننے اور سر پر اوڑھنیاں رکھنے والی ۱۰؍ہزار سے زائد مسلم خواتین کو سرعام تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بے حجاب ہونے کے احکامات نہ ماننے پر گرفتار کیا جاچکا ہے۔ اس ضمن میں تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبہ سے ملنے والی مصدقہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اسلام اور اسلامی شعائر کے دشمن صدر مملکت امام علی رحمانوف کے سخت ترین احکامات پر پولیس انٹیلی جنس اور سیکورٹی اداروں کی جانب سے اسلام سے اسلام پسند اور راسخ العقیدہ مسلمانوں کو عشاء کی نماز یا فجر کی نماز کے لیے جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا، جنھیں جیلوں میں اذیتیں دی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے گرفتاریوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ جن میں اسکارف پہننے والی خواتین بھی شامل ہیں۔ روسی میڈیا کا کہنا ہے کہ تاجک حکومت کے احکامات پر تمام دینی مدارس میں سیکولر نصاب رائج کر کے ان کی نگرانی کا عمل سخت کر دیا گیا ہے جبکہ اسلامی ممالک میں دین اسلام اور قرآن و فقہ کی تعلیم کے حصول کے لیے جانے والے تمام تاجک طلباء کو واپس بلوا لیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں مساجد میں ۲۰سال سے کم عمر نوجوانون کو جانے سے روکنے کا قانون بھی نافذ کر دیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک کے مطابق ملک کے تمام اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز سمیت پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طالبات کے لیے سر ڈھانپنا خلاف قانون قراردیا گیا ہے۔ اپنے ان اقدامات کے حوالے سے تاجکستان کی سیکولر حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ سب انتہا پسند ی کو روکنے کے لیے کیا جارہا ہے۔ روسی آن لائن نیوز پورٹل ، ریانووستی کا کہنا ہے کہ حکومت نے جہاد پر یقین رکھنے والی تنظیموں جماعت انصار، اسلامک موومنٹ آف تاجکستان، اسلامک موومنٹ آف از بکستان اور حزب التحریر کو خلاف قانون قرار دے کر ان پر پابندی عائد کردی ہے۔ بھارتی جریدے، ٹائمز آف مالٹا کے مق نمائندے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ حکومت نے ملک بھر میں ایسی دکانیں بھی بند کرنے کے احکامات دیئے ہیں جہاں ٹوپی، مصلیٰ،اسلامی اسکارف اور دیگر اسلامی لباس فروخت کئے جاتے تھے۔ نمائندے نے انکشاف کیا ہے کہ سرکاری حکام نے صرف دارلحکومت دو شنبہ میں ۱۵؍دن کا نوٹس دے کر ایسی ۱۶۰؍دکانوں کو سیل کردیا ہے۔ تاجک صدر امام علی رحمانوف کا دعویٰ ہے کہ انٹیلی جنس حکام نے تصدیق کی ہے کہ شام ، عراق اور افغانستان میں جہاد کے لیے جانے والے تاجک جنگجوؤں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، اسی لیے حکومت نے انتہا پسندی ختم کرنے کے لیے سخت اقدامات اٹھائے ہیں۔ العربیہ نیوز پورٹل کی رپورٹ کے مطابق تاجک حکومت نے مسلمانوں کو عربی نام رکھنے سے روکنے کا قانون بنادیا ہے او رکسی ایسے بچے کا نام رجسٹرڈ ہی نہیں کیا جارہا جو عربی یا اسلامی ہو۔ ادھر عالمی ذرائع ابلاغ سمیت خود روسی میڈیا نے بھی زبردستی مسلمانوں کی دارھیاں مونڈنے کو ایک سخت عمل قراردیا ہے۔ روسی تجزیہ نگار، آندرے رشکانوف کا کہنا ہے کہ تاجکستان میں جس طرح دہشت گردی یا سلامی انتہاپسندی سے نمٹنے کی کوششیں کی جارہی ہیں وہ حیران کن ہی نہیں افسوس ناک بھی ہیں۔ کیوں کہ ایسے اقدامات سے انتہا پسندی ختم ہونے کے بجائے اس میں مزید اضافہ ہوگا۔ روسی تجزیہ نگار کے مطابق ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ دار الحکومت دو شنبہ میں حکومتی اہلکاروں اور پولیس نے سر راہ چلتے ہوئے عام مسلمانوں کو ڈارھی رکھنے پر سڑک پر ہی تشدد کا نشانہ بنایا اور قینچی سے ان کی ڈاڑھیاں کاٹ دی گئیں۔ اس ظالمانہ اقدام سے مسلمانوں اور عام شہریوں میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ، ریڈیو فری یورپ کا کہنا ہے کہ تاجکستان میں مسلم نوجوانوں میں شدید بے چینی پائی جارہی ہے کیونکہ امام علی رحمانوف کے احکامات پر ناصرف مساجد اور مدارس پر کریک ڈاؤن جاری ہے بلکہ امام و خطیب حضرات کے سوا کسی اور کو ڈاڑھی رکھنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے جبکہ ۲۰ سال سے کم عمر نوجوانوں کو نماز کی ادائیگی اور قرآن کی تعلیمات سے زبردستی دور رکھا جا رہا ہے۔ جبکہ ۲۰۱۵ء کے ایک خصوصی حکم نامہ کے تحت ۴۰ سال سے کم عمر کے تاجک مسلمانوں پر حج و عمرے پر جانے کی پابندی عائد کردی گئی ہے اور اس حوالے سے ٹور آپریٹرز کو پابند کر دیا گیا ہے کہ وہ ۴۰ سال سے کم عمر مسلم شہریوں اور ڈاڑھی والوں کے پاسپورٹس کو حج یا عمرے کی ویزا پروسینگ میں شامل نہ کریں۔ دار الحکومت دو شنبہ میں ایک مقامی دکان دار رشید کا کہنا ہے کہ پولیس کو خصوصی احکامات دیے گئے ہیں کہ چور اور ڈاکو کو بعد میں پکڑو لیکن ڈاڑھی والے کو دیکھتے ہیں گرفتار کر لو، کیوں کہ وہ راسخ العقیدہ مسلمان ہے۔
(مطبوعہ: روزنامہ ’’امت‘‘ کراچی، ۲۲جنوری ۲۰۱۶ء)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.