تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

معرکۂ حق و باطل

حضرت امیر شریعت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور جسٹس منیر کا ایک دلچسپ اور ایمان افروز مکالمہ
سید محمد کفیل بخاری
1953ء کی تحریک ختم نبوت اپنے شباب پر پہنچ کر مائل بہ اختتام تھی۔ تحریک کی قیادت اور ہزاروں کارکن جیلوں میں بند تھے۔ ’’عدالتی تحقیقات‘‘ کے لیے جسٹس منیر اور ایم آر کیانی پر مشتمل ایک عدالتی کمیشن (لاہور ہائی کورٹ) سماعت کر رہا تھا۔ جسٹس منیر متعصب قادیانی نواز تھا۔ وہ علما کو کمرۂ عدالت میں بلا بلا کر بے عزت کر رہا تھا۔ تحریک ختم نبوت کو ’’احرار، احمدی نزاع‘‘ اور ’’فسادات ِپنجاب‘‘ کا نام دیتا تھا۔ اسلام کو موضوعِ بحث بنا کر علماء کا مذاق اڑا رہا تھا، اور اپنے قادیانی آقاؤں اور محسنوں کو خوش کر رہا تھا۔
لیکن… ایک دن وہ اپنی ہی عدالت میں پکڑا گیا۔ اس نے قائد تحریک تحفظ ختم نبوت حضرت امیر شریعت مولاناسید عطاء اﷲ شاہ بخاری (علیہ الرحمتہ) کو عدالت میں طلب کر لیا۔ حکومت نے بیان داخل کرنے کے لیے حضرت امیر شریعت ؒکو سکھر جیل سے لاہور سنٹرل جیل منتقل کر دیا۔ پیشی کی تاریخ پرحضرت امیر شریعتؒاور اُن کے قیدی رفقا کو سخت پہرے میں عدالت میں لایا گیا۔
عدالتی ہر کارے نے آواز لگائی:
سرکار بنام عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ وغیرہ، وغیرہ۔
اب، اسیرِ ختم نبوت حضرت امیر شریعتؒ، پورے قلندرانہ جاہ و جلال اور ایمانی جرأت و وقار کے ساتھ کمرۂ عدالت میں داخل ہوئے۔ سرفروشانِ احرار نے پورے ہائی کورٹ کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔عدالت کے دروازے پر ہزاروں فدائینِ ختم نبوت اور شمعِ ناموس رسالت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پروانے نعرہ زن تھے۔ نعرۂ تکبیر:اﷲ اکبر، تاج و تختِ ختم نبوت :زندہ باد، مرزائیت:مردہ باد۔
امیر شریعتؒ نے عدالت کے دروازے پر کھڑے ہو کر ہتھکڑیاں فضا میں لہرائیں اور ہاتھ سے اشارہ کیا۔
مجمع وارفتگی سے پوچھ رہا تھا:کہیے :کیا حکم ہے؟ دیوانہ بنوں، یا نہ بنوں؟
حکم ہوا… خاموش!
تمام مجمع ساکت و جامد!
حضرت امیر شریعتؒعدالت میں داخل ہو گئے۔
جسٹس منیر بغض و حسد سے بھرا ہوا، غصے سے لال پیلا، گردن تنی ہوئی اور تکبر و غرور کا پیکرِ ناہنجار بنا کرسی پر بیٹھا تھا۔مردِ مومن کے چہرۂ انور پر نگاہ پڑی تو اُس کی آنکھیں جھک گئیں۔جسٹس منیر دوسری مرتبہ آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ کر سکا۔
کارروائی شروع ہوئی۔حضرت امیر شریعتؒنے اپنا تحریری بیان عدالت میں پیش کیا۔جسٹس منیر نے ایک نظر بیان کو دیکھا(جسے اس نے ’’منیر انکوائری رپورٹ‘‘ میں شامل نہیں کیا۔) اور پھر اپنے مخصوص چبھتے ہوئے انداز میں سوالات کا آغاز کر دیا۔
جسٹس منیر: ہندوستان میں اس وقت کتنے مسلمان ہیں؟
امیر شریعتؒ: سوال غیر متعلق ہے، مجھ سے پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں پوچھیں۔
جسٹس منیر: (تمسخر آمیز لہجے میں) ہندوستان اور پاکستان میں جنگ چھڑ جائے تو ہندوستان کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
امیر شریعتؒ: ہندوستان میں علما موجود ہیں، وہ بتائیں گے۔
جسٹس منیر: (طنز کرتے ہوئے) آپ بتا دیں؟
امیر شریعتؒ: پاکستان کے بارے میں پوچھیں، یہاں کے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟
جسٹس منیر: مسلمان کی تعریف کیا ہے؟
امیر شریعتؒ: اسلام میں داخل ہونے اور مسلمان کہلانے کے لیے صرف کلمۂ شہادت کا اقرار و اِعلان ہی کافی ہے،لیکن اسلام سے خارج ہونے کے ہزاروں روزن ہیں۔ ضروریاتِ دین میں کسی ایک کا انکار کفر کے ماسوا کچھ نہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی صفاتِ عالیہ میں سے کسی ایک کو بھی انسانوں میں مانا تو مشرک، قرآن کریم کی کسی ایک آیت یا جملہ کا انکار کیا تو کافر، اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے منصبِ ختم نبوت کے بعد کسی انسان کو کسی بھی حیثیت میں نبی مانا تو مرتد۔
جسٹس منیر: (قادیانی وکیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اِن کے بارے میں کیا خیال ہے؟
امیر شریعتؒ: خیال نہیں، عقیدہ۔ جو اِن کے بڑوں کے بارے میں ہے۔
مرزائی وکیل: نبی کی تعریف کیا ہے؟
امیر شریعتؒ: میرے نزدیک اُسے کم از کم ایک شریف آدمی ہونا چاہیے۔
جسٹس منیر: (بدتمیزی کے انداز میں) آپ نے مرزا قادیانی کو کافر کہا ہے؟
امیر شریعتؒ: میں اس سوال کا آرزو مند تھا۔ کوئی بیس برس اُدھر کی بات ہے، یہی عدالت تھی۔ جہاں آپ بیٹھے ہیں، یہاں انگریزچیف جسٹس، مسٹر جسٹس ڈگلس ینگ تھے۔ اور جہاں مسٹر کیانی بیٹھے ہیں، یہاں رائے بہادر جسٹس رام لال تھے۔ یہی سوال انھوں نے مجھ سے پوچھا تھا۔وہی جواب آج دہراتا ہوں کہ میں نے ایک بار نہیں ہزاروں مرتبہ، مرزا کو کافر کہا ہے، کافر کہتا ہوں اور جب تک زندہ ہوں گا ،کافر کہتا رہوں گا۔یہ میرا ایمان اور عقیدہ ہے اور اِسی پر مرنا چاہتا ہوں۔مرزا قادیانی اور اُس کی ذریت کافر و مرتد ہے۔ مسیلمہ کذاب اور ایسے ہی دیگر جھوٹوں کو دعویٔ نبوت کے جرم میں ہی قتل کیا گیاتھا۔
جسٹس منیر: (غصے سے بے قابو ہو کر، دانت پیستے ہوئے) اگر غلام احمد قادیانی آپ کے سامنے یہ دعویٰ کرتا تو آپ اسے قتل کر دیتے؟
امیر شریعتؒ: میرے سامنے اب کوئی دعویٰ کر کے دیکھ لے!
حاضرینِ عدالت: نعرۂ تکبیر: اﷲ اکبر، ختم نبوت:زندہ باد، مرزائیت:مردہ باد… کمرۂ عدالت لرز گیا۔
جسٹس منیر: (بوکھلا کر) توہین عدالت…!
امیر شریعتؒ: (جلال میں آ کر) توہین رسالت…!
جسٹس منیر … دم بخود، خاموش، مبہوت، حواس باختہ، چہرہ زرد، ہوش عنقا… پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگا۔
’’عدالت‘‘ امیر شریعت کی جرأتِ ایمانی اور جذبۂ حب ِرسول صلی اﷲ علیہ وسلم دیکھ کر سکتے میں آ چکی تھی۔
امیر شریعتؒ: (گرج دار آواز میں) کچھ اور…؟
جسٹس منیر: (پریشانی میں بڑبڑاتے ہوئے) میرا خیال ہے ۔ہمیں مزید کچھ بھی نہیں پوچھنا! عدالت برخواست ہو جاتی ہے۔
٭……٭……٭

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.