تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

ممتاز قادری رحمتہ اللہ علیہ کے بعد ۔۔۔

منصور اصغر راجہ

 

منیر انکوائری کمیشن کی تحقیقات کے دوران جسٹس منیر علمائے کرام کے استہزا کا کوئی موقعہ ضائع نہیں جانے دیتے تھے۔ ایسے ہی ایک موقعہ پر جب امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمتہ اﷲ علیہ ان کے سامنے پیش ہوئے تو جج صاحب نے پوچھا: ’’شاہ جی! سنا ہے کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ مرتد واجب القتل ہوتا ہے تو اگر مرزا غلام احمد آپ کی زندگی میں نبوت کا دعویٰ کرتے تو کیا آپ انھیں قتل کردیتے؟‘‘ شاہ جی نے برجستہ جواب دیا کہ ’’جی بالکل! اگر کسی کو میری بات پر یقین نہیں تو وہ اب میرے سامنے دعویٰ نبوت کر کے دیکھ لے‘‘۔ شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ کی زبان سے جیسے ہی یہ الفاظ نکلے جسٹس منیر کا رنگ فق ہوگیا اور کمرۂ عدالت ختم نبوت زندہ باد کے نعرون سے گونج اٹھا۔ ایک ثقہ روایت کے مطابق جب غازی علم دین شہید کر لحد میں اتارا جارہا تھا تو قبر پر کھڑے مولاناظفر علی خان بے اختیار سسکت پڑے……‘‘کاش! آج اس نوجوان کی جگہ میں ہوتا‘‘ محدثِ کبیر علامہ انور شاہ کشمیری فرمایا کرتے تھے کہ ’’جب حکومت اپنے باغیوں کو برداشت نہیں کرتی تو میں خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں کو کیسے برداشت کرلوں؟‘‘ 1953ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران جب امیر شریعت سکھر جیل میں قید تھے۔ ایک شب پولیس کی بھاری نفری نے ان کے گھر چھاپہ مارا۔ گھر میں صرف ان کی اہلیہ اور صاحبزادی تھیں۔ ایک پولیس افسر نے ماں بیٹی سے خاصی بدتمیزی بھی کی۔ رہائی کے بعد شاہ جی رحمتہ اﷲ علیہ جب گھر پہنچے تو ایک روز ان کے بڑے صاحبزادے سید ابوذر بخاری رحمتہ اﷲ علیہ نے پولیس کی اس بد تمیزی پر غصے کا اظہار کیا تو امیر شریعت نے فرمایا:’’ میاں صاحبزادے ! کیا تمہیں صرف اس بات پر غصہ ہے کہ پولیس والوں نے تمہاری ماں اور بہن کو گالیاں دیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر پولیس والے ان دونوں ماں بیٹی کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے گلیمیں لے جاتے تو شاید تحفظ ختم نبوت کا کچھ تھوڑا سا حق ادا ہوجاتا۔‘‘
تو بھائی یہ معاملہ عشق اور جنون کا ہے۔یہاں عقل کا کیا کام؟ کالی کملی والے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس کا معاملہ آئے تو شراب کے نشے میں ڈوبے اختر شیرانی بھی کانپ کانپ جاتے ہیں اور سچ بھی یہی ہے کہ ایک مسلمان کے پاس آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت کے سوا اور ہے بھی کیا؟ ہمارے پاس تو سب سے قیمتی متاع ہی یہی ہے۔جسے ہم سے چھیننے کے لیے یہود و نصاریٰ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے سازشوں میں مصروف ہیں۔ سرولیم میور نے یہی تو تشخیص کی تھی کہ مسلمان کے بد ن سے روح محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نکال دو، جہاد و قتال سے دور کرنے کے لیے ان کے ہاتھوں میں شمشیروسناں کے بجائے طاؤس ورباب تھمادو تو پھر تمہیں اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ ولیم میور کے امریکی و برطانوی جانشین ان کی اس تشخیص سے آج بھی متفق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس طبقے کو انھوں نے ان دونوں کاموں کے لیے کھڑا کیا، ان کے خلاف پاکستانی پارلیمان میں 1974ء میں ہونے والی قانون سازی انھیں کانٹے کی طرح چبھتی ہے کہ جن کے ذریعے اس خطے میں ایک اور اسرائیل بنوانا تھا، انھیں ہی پاکستانی پارلیمان نے زنجیر ڈال دی۔ اس آئینی زنجیر کو توڑنے کی کوششیں روز اول سے ہی جاری ہیں اور آج یہ کوششیں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے جارہی ہیں۔ جہاں تک غازی ممتاز قادری رحمتہ اﷲ علیہ کی پھانسی کا معاملہ ہے وہ تو اپنی منزل پاگئے۔ ایسی شاندار موت تو قسمت والوں کو نصیب ہوا کرتی ہے۔ لیکن افسوس کہ اس موقعہ پر کچھ سیانے دانشوروں کو آئین و قانون کی حکمرانی بڑی شدت سے یادآئی ہے۔ چلیں ہم تھوڑی دیر کے لیے تسلیم کرلیتے ہیں کہ ممتاز قادری نے قانون شکنی کی، اس لیے ان کی سزا درست ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا قانون صرف ممتاز قادری کے لیے ہی تھا؟ سلمان تاثیر کی ذات قانون و آئین سے بالاتر کیوں تھی۔ وہ کس قانون کے تحت آسیہ بی بی کی طرفداری میں اتاؤ لے ہوئے جارہے تھے؟ انھوں نے کس قانون کے تحت ایک سزا یافتہ اقبالی مجرمہ سے جیل میں ملاقات کی اور اس کے حق میں پریس کانفرنس بھی کرڈالی؟ قانون کی وہ کون سی شق ہے جس کے تحت وہ اس خاتون کو صدر زرداری سے معافی دلانے کی بات کرتے تھے۔ وہ تو صوبے کے آئینی سربراہ تھے، انھوں نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا تھا۔ کیا وہ قانون توہین رسالت کو ’’ کالاقانون‘‘ کہہ کر خود ہی اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کر رہے تھے؟ جیلوں میں بند ہزاروں قیدیوں کو چھوڑ کر ایک سزایافتہ گستاخ عورت ہی ان کی نگاہ کرم کامرکز کیوں بنی تھی۔ کیا اس سے ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ باقاعدہ ایک ایجنڈے پر کام کر رہے تھے؟ سچ تو یہ ہے کہ سلمان تاثیر نے گورنر ہوتے ہوئے ملکی قوانین کو کالا قانون کہہ کر انار کی کا دروازہ خود کھولا تھا۔ لیکن چونکہ وطن عزیز میں عام آدمی کے لیے اور قانون ، طاقتور کے لیے اور قانون ہے، لہٰذا ممتاز قادری سزا وار ٹھہرے۔ خیر ممتاز قادری تو اب حدِ سودوزیاں سے آگے جاچکے ہیں۔ لیکن سلمان تاثیر اقلیتوں کے لیے جس ’’رواداری‘‘ کا مظاہرہ کررہے تھے، علامہ اقبال رحمتہ اﷲ علیہ اسے غداری اور خود کشی سے تعبیر کرتے ہیں۔ برسوں پہلے حکیم الامت علامہ اقبال اس سازش کے اسرارور موز کو بخوبی سمجھ گئے تھے۔ کاش! آج کا دانشور بھی سمجھ جائے۔ 30اپریل 1967ء کی صبح آغا شورش کاشمیری نے چنیوٹ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’علامہ اقبال فرمایا کرتے تھے کہ مسلمانوں کی سیاسی و حدت کو اس وقت نقصان پہنچتا ہے جب مسلمان سلطنتیں آپس میں ایک دوسرے سے لڑتی ہیں اور مذہبی و حدت اس وقت ٹوٹتی ہے جب خودمسلمانوں میں سے کوئی جماعت ارکان واوضاع شریعت سے بغاوت کرتی ہے۔ مرز اغلام قادیانی نے مذہبی وحدت کو شکستہ کیا۔ علامہ صاحب فرماتے تھے کہ جب سیاسی وحدت منتشر ہو تو مذہبی وحدت ہی ملت کے وجود کو باقی رکھتی ہے۔ اب اگر مسلمانوں کا کوئی طبقہ یہ کہتا ہے کہ دینی وحدت کے باغیوں سے رواداری برتی جائے اور صرف اس حیثیت سے کہ وہ اقلیت میں ہیں، انھیں اجازت دی جائے کہ وہ ایک دینی وحدت کی ہر مقدس اینٹ اکھاڑ تے چلے جائیں تو وہ اقبال ہی کے الفاظ میں دینی حسیات سے نہ صرف عاری ہے، بلکہ پست فطرت بھی ہے۔ کیونکہ اسے اس امر کا احساس ہی نہیں کہ اس صورتحال میں الحاد، غداری اور رواداری، خود کشی کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘ (بحوالہ اقبالیاتِ شورش، مرتبہ مولانا مشتاق احمد)۔
سامنے کی بات ہے کہ ممتاز قادری رحمتہ اﷲ علیہ کی پھانسی کے بعد اب اگلا ہدف قانون توہین رسالت اور پاکستان کی اسلامی شناخت ہے۔ ہماری ملی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور دینی وحدت کو ضعف پہنچانے کے لیے اس قانون اور شناخت کا خاتمہ ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ حاکمان وقت کی طرف سے تحفظ حقوق نسوان کا جو نیا قانون راج کیا گیا ہے یہ بھی تو ہماری دینی و معاشرتی وحدت کو توڑنے کی ہی کوشش ہے، کیونکہ ہماری معاشرت، معیشت، اخلاق، دین، صلہ رحمی الغرض ساری دینی سماجی اقدار ہمارے خاندانی نظام کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ اگر ہمارا خاندانی نظام تباہ ہوتا ہے تو پھر ہماری دینی و معاشرتی وحدت کیسے باقی رہ پائے گی۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں۔ حالمان وقت یہ تہیہ کیے بیٹھے ہیں کہ……
روئیں نہ ابھی اہل نظر حال پہ میرے
ہونا ہے ابھی مجھ کو خراب اور زیادہ
اپنے اقتدار کے دوام کے لیے اغیار کی پالیسیوں پر بلاچون و چراعمل کرنے والے یہ بھی فراموش کر بیٹھے کہ اقتدار خدا کی عطا ہے، واشنگٹن و لندن کی نہیں اور وہ خدا اس بات پہ قادر ہے کہ نمرود کو شاہی تحت پہ بٹھا کر جوتے پروادے۔ کسی کو ذلیل کرنے کے لیے وہ اس سے تاجِ شاہی واپس لینا ضروری نہیں سمجھتا ۔ اس سے بھی بڑھ کر افسوس ناک بات یہ ہے کہ حاکمان وقت ان کے لیے پوری قوم کے دل زخمی کر رہے ہیں، جن سے بڑا بے وفا، احسان فراموش، طوطا چشم اور مطلبی اور کوئی نہیں۔ لیکن خیر یہ بات حاکم وقت کو ذرا دیر سے سمجھ آئے گی کہ……
ہم نے عالم سے بے وفائی کی
ایک معشوق بے وفا کے لیے
قابل اطمینان امر یہ ہے کہ ممتاز قادری کے جنازے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس قوم کے بدن سے روح محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نکالناآسان نہیں۔ لوگ تحفظ ختم نبوت کی خاطر اب بھی ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ اگر کوئی کمی ہے تو صرف ایسی قیادت کی کمی ہے، جو نگاہ بلند ، سخن دلنواز اور جاں پرسوز جیسی صفات سے مالا مال ہو۔ کیا موجودہ دینی قیادت کو اس کا کچھ ادراک ہے یا ہر کسی کو صرف اپنا مدرسہ اور اپنی مسجد ی عزیز ہے۔ عوامنے ممتاز قادری کی نماز جنازہ میں شریک ہو کر دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث کا فرق مٹادیا ہے۔ دینی قیادت اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ڈھا کر اور اپنی اپنی انا کو بالائے طاق رکھ کے ایک پلیٹ فارم پر کب اکٹھی ہوگی؟ موجودہ پرفتن دور میں عام آدمی کے لیے سب سے ضروری کام یہ ہے کہ اپنا اور اپنے اہل خانہ کا ایمان بچانے کی محنت کی جائے اور اس کے لیے لازم ہے کہ ہم مسجد اور علمائے کرام سے اپنا تعلق مضبوط بنائیں۔ یاد رہے کہ باطل قوتون کا آسان ترین ہدف وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا مسجد اور علماء سے تعلق کمزور ہوتا ہے۔علاوہ ازیں موجودہ حالات سے مایوس ہونے اور شکوہ طلمت شب سے کہیں بہتر ہے کہ ہم سب اپنے اپنے حصے کی شمع جلاتے جائیں۔ قانون توہین رسالت اور پاکستان کے اسلامی تشخص کی حفاظت کے لیے اپنی اپنی سطح پر ہر شخص اپنا اپنا کردار ادا کرے کہ ظلم پر خاموش رہنا بھی ظلم ہے۔ سانحہ لال مسجد کے بعد جب وطن عزیز کو اچانک متعدد مشکلات نے اپنی لپیٹ میں لیا۔ بم دھماکوں اور خود کش حملوں کے علاوہ توانائی، پانی اور آٹے کے بحران نے قوم کو گھیر لیا۔انھی دنوں ہم نے ایک صاحبِ دل سیانے سے اس سلسلہ میں رہنمائی چاہی تو وہ فرمانے لگے کہ بجا کہ بجلی ، پانی اور آٹے کی کمیابی حکومتی بد انتظامی کا نتیجہ ہے لیکن ہمارے خیال میں یہ دراصل خدائی انتقام ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ لال مسجد سانحہ تو پرویز مشرف کا سیاہ کرتوت تھا، قوم کا اس میں کیا قصور؟ جواب ملا ’’قوم کو اس سانحے پر خاموش رہنے کی سزامل رہی ہے‘‘۔ سو حاکم وقت اپنا کام کرے اور قوم کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ یہ بات طے ہے کہ تحفظ ختم نبوت کے لیے ادنیٰ سے ادنیٰ خدمت بھی روز محشر کالی کملی والے کریم آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور رسوا نہیں ہونے دے گی۔ مشہور زمانہ بہاولپور کیس میں دلائل دینے کے لیے علامہ انور شاہ کشمیری رحمتہ اﷲ علیہ بہاولپور تشریف لائے۔ اگلی صبح جامع مسجد الصادق میں نماز فجر کے بعد درس قرآن دیتے ہوئے عجب جملے ارشاد فرمائے کہ ’’ہم سے تو گلی کا کتا بھی اچھا ہے، ہم اس سے بھی گئے گزرے ہیں۔ وہ اپنی گلی محلے کا حق نمک خوب ادا کرتا ہے جبکہ ہم حق غلام وامتی ادا نہیں کرتے۔ اگر ہم ناموس پیغمبر کا تحفظ کریں گے تو قیامت کے دن نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سفاعت کے مستحق ٹھہریں گے اور تحفظ ناموس پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم نہ کیا یانہ کرسکے تو ہم مجر م ہوں گے اور ایک کتے سے بھی بدتر ہوں گے۔‘‘ خدا کریم ہم سب کا خاتمہ ایمان پر فرمائے اور روز محشر ہمیں اپنے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے۔
مطبوعہ: روزنامہ ’’امت‘‘ کراچی، 5؍ مارچ2016ء

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.