تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

تحفظِ ختم نبوت کے لیے جدید اسلوب اپنانے کی ضرورت

مولانا زاہدالراشدی

 

فتنوں سے آگاہی حاصل کرنا اور امت کو اُن سے خبردار کرنا دینی تقاضوں اور فرائض میں سے ہے اور معاشرہ میں کسی بھی حوالہ سے پیدا ہونے والی خرابیوں کی نشاندہی کر کے مسلمانوں کو اُن سے بچانے کی کوشش کرنا بھی ہماری دینی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ اس لیے توحید و سنت، ختم نبوت، مقامِ صحابہ کرامؓ اور اہل سنت کے عقائد و مسلک کے تحفظ کے حوالہ سے ان دنوں ملک بھرمیں مختلف مقامات پر تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے مجلس احرار اسلام اور دیگر جماعتوں کے جو کورسز ہو رہے ہیں، وہ دینی جدوجہد کا اہم حصہ ہیں اور ان کو کامیاب بنانے کی سب حضرات کو پوری کوشش کرنی چاہیے۔
جنابِ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے دور میں چار اشخاص (۱) مسیلمہ کذاب (۲) اسود عنسی (۳) طلیحہ اسدی اور (۴) سجاح نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ ان میں اولُ الذکر دونوں مقابلہ میں قتل ہوگئے تھے۔ جبکہ طلیحہ اور سجاح نے توبہ کر لی تھی اور دوبارہ مسلمانوں کی صف میں شامل ہوگئے تھے۔ طلیحہ اسدیؓ کو محدثین نے صحابہ کرامؓ میں شمار کیا ہے اور وہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جہاد کے ایک معرکہ میں شہید ہوگئے تھے۔ اور سجاحؒ نے حضرت معاویہؓ کے دور میں توبہ اور تجدیدِ ایمان کی تھی۔ کوفہ میں ان کا انتقال ہوا تھا اور صحابی رسول حضرت سمرہ بن جندبؓ نے ان کا جنازہ پڑھایا تھا۔
اس لیے میری گزارش ہے کہ قادیانیوں اور دیگر منکرین ختم نبوت کے دجل و فریب کو بے نقاب کرنے اور ان کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ توبہ اور اسلام میں ان کی واپسی کا دروازہ بھی کھلا رکھنا چاہیے۔ بلکہ سب کو توبہ کی دعوت دیتے ہوئے دعوت اور توبہ کا ماحول پیدا کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔
قادیانیوں کی دعوت اور سازشوں کا عمومی میدان دینی مدارس کے طلبہ اور مساجد کے نمازی نہیں ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ جس شخص کا دینی مدرسہ، مسجد، علماء کرام اور مذہبی جماعتوں سے تھوڑا سا تعلق بھی ہے وہ اُن کے دجل و فریب کا شکار نہیں ہوگا۔ اور جو شخص دین سے اور دین کے علم و معلومات سے جس قدر دُور ہوگا وہ اُن کے فریب کا جلدی شکار ہوگا۔ اس لیے قادیانیوں کی محنت کا میدان مسجد و مدرسہ سے لاتعلق افراد و طبقات ہیں اور وہ لوگ ہیں جو دین کی معلومات سے بہرہ ور نہیں ہیں۔ جبکہ ہماری محنت کا میدان زیادہ تر ہمارا اپنا ماحول ہوتا ہے۔ اس ماحول میں بھی محنت کی ضرورت ہے کہ اس سے ایمان میں پختگی آتی ہے اور بیداری قائم رہتی ہے۔ لیکن ہماری محنت کا اصل میدان دین سے لا تعلق افراد و طبقات ہیں جن کی طرف ہماری توجہ بہت کم ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی جدوجہد اور ترجیحات کا از سرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔
قادیانیوں کی محنت کا طریقِ کار بدل چکا ہے، وہ مناظرہ و مجادلہ کا محاذ چھوڑ کر لابنگ اور بریفنگ کے ہتھیاروں سے کام لے رہے ہیں۔ ان کے دلائل انسانی حقوق کے جدید فلسفہ اور آج کے بین الاقوامی قوانین و رواجات پر مشتمل ہوتے ہیں اور وہ ان حوالوں سے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے میڈیا کے تمام شعبوں صحافت، ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا میں اپنی کمین گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں اور سیکولر این جی اوز کو پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ وہ فائل ورک اور لابنگ کی ان صلاحیتوں کو خوب استعمال کر رہے ہیں، جن کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں اس صورت حال پر توجہ دینا ہوگی اور اُن ہتھیاروں اور اسلوب میں مہارت حاصل کرنا ہوگی جو آج کے دور میں عام طور پر استعمال ہو رہے ہیں، اور جن کے بغیر کوئی جدوجہد آگے نہیں بڑھ سکتی۔
خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اﷲ عزو جل فرماتے ہیں کہ روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، بندہ اپنی شہوت اور کھانے پینے کو صرف میری وجہ سے چھوڑدیتا ہے اور روزہ (جہنم سے) ڈھال ہے اور روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی افطار کے وقت اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت اور البتہ روزہ دار کے منہ کی بُو (جومعدہ کے خالی ہونے سے پیدا ہوتی ہے) اﷲ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ (اور پسندیدہ) ہے۔ (بخاری)

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.