تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

شکیلیت: ایک نیا فتنہ

مولاناالیاس نعمانی(انڈیا)
شکیل بن حنیف دربھنگہ بہار کے موضع عثمان پور(انڈیا) کا رہنے والا ایک شخص ہے، جس نے چند برس قبل، جب کہ وہ دہلی میں تھا،مہدی ہونے اور پھر مہدی و مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، اور اس طرح ایک نئی قادیانیت کی داغ بیل ڈالی، اس نے پہلے دہلی کے مختلف محلوں میں اپنی مہدویت ومسیحیت کی تبلیغ کی، لیکن ہر جگہ سے اسے کچھ دنوں کے بعد ہٹنا پڑا، پہلے محلہ نبی کریم کو اُس نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، اور پھر لکشمی نگر کے دو مختلف علاقوں میں یکے بعد دیگرے رہ کر اپنے مشن کو چلاتا رہا، دہلی کے زمانۂ قیام میں اس نے بالخصوص اُن سادہ لوح نوجوانوں کو اپنا نشانہ بنایا جو دہلی کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہاں آتے تھے، لیکن جیسے ہی لوگوں کو اِن حرکتوں کی اطلاع ہوتی وہ اس کے خلاف ایکشن لیتے اور اسے اپنا ٹھکانہ تبدیل کرنا پڑتا، بالآخر اُسے دہلی سے ہٹنے کا فیصلہ کرنا پڑا، اور اس نے اپنی بود وباش مہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد میں اس طرح اختیار کرلی کہ ’کسی‘ نے اس کے لیے ایک پورا علاقہ خرید کر ایک نئی بستی بسادی، جس میں وہ اور اس کے حوالی رہتے ہیں۔
ملک کے مختلف حصوں میں اس جھوٹے مہدی ومسیح کی دعوت وتبلیغ کا سلسلہ برسوں سے خاصی تیزی کے ساتھ جاری ہے، دہلی، یوپی، بہار، مہاراشٹر، آندھرا پردیش، گجرات وکیرالہ وغیرہ میں اس کے فتنہ میں اچھی خاصی تعداد میں لوگ آچکے ہیں،مگر الحمد ﷲ ہر جگہ کچھ نہ کچھ لوگوں نے اُس کے تعاقب کی فکر بھی شروع کردی ہے۔
ان لوگوں کا طریقۂ کار یہ ہے کہ یہ بہت خفیہ طور پر کسی نوجوان سے رابطہ کرتے ہیں، یہ نوجوان عام طور پر کسی کالج یا یونیورسٹی کا ایسا طالب علم ہوتا ہے کہ جس کا کسی عالم، دینی جماعت یا دینی تنظیم سے کوئی رابطہ نہ ہو، یہ پہلے اس سے عام دینی گفتگو کرتے ہیں، اور چونکہ اس فتنہ کے تمام داعی اپنا حلیہ ایسا بنائے پھرتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر ہر شخص یہی محسوس کرے کہ یہ بہت متبع سنت قسم کے دین دار نوجوان ہیں،مثلاًلمبی داڑھیاں رکھتے ہیں، لباس میں لمبے کرتے اور اونچی شلوار کا اہتمام کرتے ہیں، گفتگو میں بار بار الحمد ﷲ، سبحان اﷲ، ماشاء اﷲ، ان شاء اﷲ اور اِن جیسے دیگر الفاظ کی کثرت رکھتے ہیں، اس لیے وہ سادہ لوح اور ناواقف نوجوان ان سے بہت زیادہ متاثر ہوجاتا ہے، اور انہیں بہت دین دار سمجھنے لگتا ہے،اپنی بابت یہ تاثر قائم کرنے کے بعد یہ اپنے مخاطب سے علاماتِ قیامت کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کا مصداق نئے انکشافات، نئی ایجادات اور معاصر دنیا کے بعض حالات وواقعات کو قرار دیتے ہیں، اس درمیان یہ بہت ہوشیاری کے ساتھ یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ اپنے مخاطب کے ذہن میں علما کی تصویر ایسی بنادیں کہ وہ اُن کی کسی بات کی تصدیق علما ء سے کرانے کی ضرورت نہ سمجھے، مثلاً یہ کہتے ہیں کہ علما کو اِن علاماتِ قیامت کا کچھ علم نہیں ہوتا، اس لیے کہ انہیں زمانۂ طالب علمی میں یہ حدیثیں پڑھائی ہی نہیں جاتیں، انہیں بس حدیث کی کتابوں کے چند منتخب ابواب پڑھا دیے جاتے ہیں، جن کا تعلق نماز، روزہ جیسے مسائل سے ہوتا ہے، تاکہ یہ کسی مسجد کے امام یا کسی مدرسہ کے مدرس بن سکیں۔ ان کا مخاطب جو اَب تک ان کے دین دار ہونے کا تاثر رکھتا ہے۔ یہ باتیں سن کر اُن کو دین کا ایسا ماہر بھی سمجھنے لگتا ہے کہ جو علما سے زیادہ دین کو جاننے والا ہے، اور اب اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ یہ اسے جو بتادیں وہ اس پر یقین کرلے۔
اس کے بعد یہ اپنے مدعو کو یہ باور کراتے ہیں کہ دجال کی آمد ہوچکی ہے، وہ امریکا وفرانس کو دَجال بتاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ایک حدیث میں جو یہ بتایا تھا کہ دجال کی پیشانی پر ’کافر‘ لکھا ہوگا اس سے آپ ﷺکا اشارہ یہی دونوں ممالک تھے، اس لیے کہ جب ان دونوں کا نام ایک ساتھ لکھا جائے (امریکا فرانس) تو بیچ میں کافر لکھا ہواہوتا ہے، دجال کی ایک آنکھ ہونے کا مصداق وہ سیٹلائٹ کو قرار دیتے ہیں، بعض روایات میں دجال کے بارے میں ہے کہ وہ ایک گدھا ہوگا، یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد فائٹر پلین (جنگی جہاز)ہے،وغیرہ۔
دجال کی بابت اپنی ایسی گفتگوکے بعد یہ داعیانِ شکیلیت کہتے ہیں کہ دجال کی آمد کے بعد مہدی ومسیح کو آنا تھا، اور وہ آچکے ہیں، اور اب نجات کا بس یہی ایک ذریعہ ہے کہ ہم ان کے ہاتھ پر بیعت کرلیں، اگر مخاطب بہت سادہ لوح ہوتا ہے اور یہ خواہش ظاہر کرتا ہے کہ مجھے بھی اس ’سفینۂ نجات‘ میں سوار ہونا ہے تو اُسے (عام طور پر) پہلے صوبائی امیرکے پاس بھیجا جاتا ہے، مثلاً یوپی میں بنارس بھیج دیا جاتا ہے، جہاں بنارس ہندو یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک نوجوان سے اس کی ملاقات ہوتی ہے،یہ صاحب یوپی میں اس جھوٹے مہدی ومسیح کے مشن کے امیربتائے جاتے ہیں، اور پھر کچھ دنوں کے بعد اورنگ آباد بھیج کرفتنہ کے بانی شکیل بن حنیف کے ہاتھ پر بیعت کرادی جاتی ہے، لیکن اس بات کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے کہ بیعت سے پہلے اس جھوٹے مہدی ومسیح کا اصلی نام سامنے نہ آئے، یہاں تک کہ لوگوں کے دریافت کرنے پر بھی یہ لوگ اس کا اصلی نام نہیں بتاتے ہیں،تاکہ اگر یہ شخص کہیں کسی سے تذکرہ کر بھی دے تو بھی لوگوں کو معلوم نہ ہوپائے کہ یہ کس ’مسیح‘ کی دعوت دی جارہی ہے۔
دجال کی بابت شکیلیوں کا دعوی اتنا بدیہی غلط ہے کہ کوئی بھی آدمی جسے اﷲ نے عقل سلیم سے نوازا ہو، انہیں صحیح مان ہی نہیں سکتا، اور اس لیے اس سلسلہ میں کسی تفصیلی گفتگو کی ضرورت نہیں ہے، لیکن پھر بھی اتنا عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے دجال کی بابت جو کچھ بتایا ہے، اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک انسان ہی ہوگا، دو ممالک کا مجموعہ یا سیٹلائٹ یا فائٹر پلین نہیں، آپ ﷺ نے اس کا حلیہ بھی بالکل واضح طور پر بتادیا ہے، مثلاً بخاری کی ایک حدیث (۷۰۱، کتاب ذکر الانبیاء، باب قول اﷲ تعالیٰ واذکر فی الکتاب مریم) میں ہے کہ آپ کو خواب میں دجال دکھایا گیا، تو وہ ایک سرخ رنگ کا موٹا شخص تھا،اس کے بال گھنگھریالے تھے، داہنی آنکھ سے کانا تھا، یہاں تک کہ اس حدیث میں آپ ﷺ نے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ قبیلہ خزاعہ کے ایک آدمی ابن قطن کے مشابہ تھا، ان واضح نشانیوں کے بعد کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ کوئی بھی عقل مند شخص یہ کہے کہ دجال ایک شخص نہیں،بلکہ وہ دو ممالک کا مجموعہ ہے، اور اس کی آنکھ سیٹلائٹ ہے۔
احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ دو الگ الگ شخصیات ہیں، جب کہ شکیل، غلام احمد قادیانی کی طرح اس بات کا دعوے دار ہے کہ کہ وہ بیک وقت مہدی بھی ہے اور مسیح بھی، ظاہر ہے کہ یہی ایک بات اس کے جھوٹے ہونے کے لیے کافی ہے۔حضرت مہدی کی بابت رسول اکرم ﷺکی حدیثوں میں متعدد علامتیں بیان کی گئی ہیں، ذیل میں ہم ان میں سے چند کا تذکرہ کریں گے، اور پھر ان کی روشنی میں شکیل کا جائزہ لیں گے:
(۱) رسول اﷲ ﷺ نے بتایا تھا کہ حضرت مہدی کا نام محمد اور اُن کے والد کا نام عبد اﷲ ہوگا، (ابوداؤد: ۴۲۸۲، کتاب المہدی)، جب کہ شکیل، شکیل بن حنیف ہے، محمد بن عبد اﷲ نہیں۔
(۲) رسول اﷲ ﷺنے یہ بھی بتایا تھا کہ مہدی آپ ﷺکی ہی نسل سے ہوں گے،اور اُن کا سلسلۂ نسب حضرت فاطمہؓ تک پہنچے گا، (ابوداؤد:۴۲۸۴، کتاب المہدی)جب کہ شکیل کا اس خاندان اور نسل سے کوئی تعلق نہیں، وہ تو ہندوستانی نسل کا ہے۔
(۳)حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی روشن پیشانی ،یعنی گورے رنگ کے ہوں گے،(ابوداؤد:۴۲۸۵، کتاب المہدی)، جب کہ شکیل ایسا نہیں ہے۔
(۴) رسول اﷲ ﷺنے یہ بھی بتایا تھا کہ حضرت مہدی سے پہلے دنیا بھر میں ظلم ونا انصافی کا راج ہوگا، اور وہ ظلم کا خاتمہ کرکے دنیا میں عدل وانصاف کا بول بالا کردیں گے،(ابوداؤد: ۴۲۸۲، کتاب المہدی) جب کہ شکیل کے دعویٔ مہدویت کو دس برس سے زائد کا عرصہ گزرگیا ہے، اور اس عرصہ میں دنیا میں ظلم ونا انصافی مسلسل بڑھی ہی ہے، کم نہیں ہوئی ہے۔
(۵) حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکمران بھی ہوں گے، (ابوداؤد: ۴۲۸۵، کتاب المہدی)، اور شکیل حکمرانی تو ایک طرف رہی ،وہ اُس کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔
(۶) احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ محمد بن عبد اﷲ، مہدی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد زیادہ سے زیادہ نو برس رہیں گے۔(ترمذی: ۲۲۳۲،ابواب الفتن، باب بعد باب ماجاء فی المہدی)جن میں سے سات برس وہ حکومت فرمائیں گے،(ابوداؤد: ۴۲۸۵، کتاب المہدی) شکیل بن حنیف کے دعویٔ مہدویت کو دس برس سے زائد کا عرصہ گزرگیاہے اور ابھی تک نہ اس کا انتقال ہوا ہے اور نہ اس کی حکومت قائم ہوئی ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اس دنیا میں دوبارہ تشریف آوری کی بابت بھی قرآن اور حدیث میں کچھ ایسی واضح باتیں بتادی گئی ہیں کہ جن کو سامنے رکھ کر شکیل وقادیانی جیسے ہر جھوٹے کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے، ذیل میں ایسی ہی چند علامتیں درج کی جاتی ہیں:
(۱) اس سلسلہ میں سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی آمد کے سلسلہ میں آنحضرت (ﷺ) نے جو کچھ بیان فرمایا ہے، اس سے یہ بات بالکل قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہوتی ہے کہ وہ وہی عیسیٰ بن مریم علیہما السلام ہوں گے جو بنی اسرائیل کے نبی تھے، اور جن کی والدہ حضرت مریم تھیں اور جو بغیر والد کے پیدا ہوئے تھے، صحیح بخاری وصحیح مسلم سمیت حدیث کی متعدد کتابوں میں ایسی کئی روایتیں پائی جاتی ہیں ،جن میں قیامت کے قریب آپ کی آمد کا تذکرہ ہے اور آپ کا نام عیسیٰ بن مریم ہی لیا گیا ہے، ان میں سے چند روایتیں ابھی آپ پڑھیں گے۔ مہدی وعیسیٰ ہونے کا یہ دعویدار شکیل بن حنیف ہے جو ہندوستان کے ایک علاقہ سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ عیسیٰ بن مریم بنی اسرائیل کے نبی تھے اور جو بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور جن کی والدہ کا نام مریم تھا۔
(۲) حضرت عیسیٰ کی دوبارہ آمد کے سلسلہ میں متعدد احادیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ اتریں گے، ( بخاری: ۲۲۲۲، کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر، )جب کہ یہ شکیل بن حنیف ،عثمان پور نامی ایک گاؤں میں اپنے والد حنیف کے یہاں پیدا ہوا ہے، آسمان سے نہیں اترا ہے۔
(۳)رسول اﷲ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،تم میں ابن مریم انصاف پسند حکمران بن کرضرور نازل ہوں گے۔ صلیب کو توڑ دیں گے(یعنی آپ کی آمد کے بعد سارے عیسائی مسلمان ہوجائیں گے، اور صلیب کی عبادت ختم ہوجائے گی) خنزیر (کی نسل) کو قتل کردیں گے……، اور مال ودولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ کوئی صدقات قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔(بخاری: ۲۲۲۲،کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر ۔ مسلم: ۱۵۵؍ ۲۴۷۶، کتاب الایمان، باب نزول عیسیٰ بن مریم)
اب ذرا اِس حدیث کی روشنی میں شکیل کا جائزہ لیجیے، وہ نہ اب تک حکمراں بنا ہے اور نہ حکمرانی کا کوئی ارادہ رکھتا ہے، وہ تو اورنگ آباد، مہاراشٹر(انڈیا) کے پاس کی ایک بستی میں چھپا بیٹھا ہے، اور وہاں سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتا، اور اُس نے کبھی کوئی صلیب توڑی ہے اور نہ کسی عیسائی نے اس کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے، خنزیروں کوقتل کیا ہے اور نہ اس کے آنے کے بعد دنیا میں مال ودولت کی فراوانی ہوئی ہے، اور نہ غربت کا خاتمہ ہوا ہے کہ صدقات لینے والا کوئی نہ ملے۔
(۴) قرآن مجیدمیں سورہ نساء کی آیت (۱۵۹) میں فرمایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ کی وفات سے پہلے تمام اہل کتاب (یہودی وعیسائی) مسلمان ہوجائیں گے، : ’وان من اہل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ‘، اور شکیل کے ہاتھ پر اب تک ایک بھی عیسائی اسلام نہیں لایا۔
ان کے علاوہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰؑ کی بابت اور بھی علامتیں یا پیشین گوئیاں حدیث کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں، لیکن قرآن وصحیح احادیث میں مذکور یہی چار علامتیں شکیل کے دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔
اس فتنہ کے مقابلہ کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہر علاقہ کی تمام مساجد میں جمعہ کی نماز کے موقع پر اس سلسلہ میں گفتگو کرکے لوگوں کو اس فتنہ سے آگاہ کیا جائے، اسی طرح ہم ان لوگوں کو فتنہ سے آگاہ کرسکتے ہیں جن کو اِس فتنہ کے داعیان اپنا مخاطب بناتے ہیں، نماز جمعہ کے علاوہ ان لوگوں کا کوئی رابطہ کسی دینی راہ نمائی کے نظام سے نہیں ہوتا ہے،اگر ہر علاقہ کے سرگرم خادمانِ دین اپنے اپنے علاقہ کی فکر کرلیں اور یہ کوشش کرلیں کہ ان کے علاقہ کی ہر مسجد میں نماز جمعہ سے قبل اس طرح کی گفتگو کرلی جائے تو امید ہے کہ اس فتنہ کو روکا جاسکے گا۔ ہمارے یہاں عام طور پر کسی فتنہ کی فکر اُس وقت کی جاتی ہے ،جب لوگ اس کا شکار ہوجاتے ہیں، تب تک فتنہ اپنے پاؤں اتنے جما چکا ہوتا ہے کہ اس کو ختم کرنا ناممکن ہوچکا ہوتا ہے، اس نئی قادیانیت کا تعاقب ابھی سے کرنا ضروری ہے، ورنہ بعد میں یہ فتنہ اگر تناور درخت بن گیا تو پھر اس کا خاتمہ ناممکن ہوجائے گا:
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

٭……٭……٭

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.