تازہ ترین خبریں
آپ کو مجلس احرار کیسی لگی؟

قادیانیت: مکالمہ کہ مطاعمہ ؟

رعایت اللہ فاروقی
ختم نبوت کے مسئلے پر قادیانیوں کی نسبت سے کچھ لوگوں کو مکالمے کا وہی ہیضہ تنگ کرنے لگا ہے جو مرزا قادیانی کا دنیوی انجام بنا تھا۔ مکالمے کے یہ شوقین بھول رہے ہیں کہ قادیانیت کے مسئلے پر اسلامی تاریخ کا سب سے طویل المدت ختم نبوت مکالمہ ہو چکا۔ اس مکالمے میں پیر مہر علی شاہ، علامہ محمد اقبال، مولانا محمد حسین بٹالوی، شیخ الہند مولانا محمودالحسن، علامہ انور شاہ کشمیری، صاحبزادہ فیض الحسن، مولانا مظہر علی اظہر، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا ثناء اﷲ امرتسری، سید عطاء اﷲ شاہ بخاری، مولانا داؤد غزنوی، مظفر علی شمسی، علامہ ابوالحسنات، علامہ یوسف بنوری، علامہ احسان الہی ظہیر، مولانا محمود رضوی جیسے لوگ گلی کوچوں، سڑکوں، درسگاہوں، بار رومز، چیمبرز آف کامرس اور چوک چوراہوں سے لے کر مساجد کے منبروں تک اور وہاں سے عدالتوں کے کٹہروں تک ہر جگہ شریک ہوئے جبکہ مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا مصطفے الازہری، مولانا عبدالحق، اور پروفیسر غفور احمد، مولانا غلام غوث ہزاروی اور اس وقت کے اٹارنی جنرل پاکستان یحی بختیار جیسے لوگ تو اس میں اس مکالمے کے اس فیصلہ کن حصے میں شریک ہوئے جو مدرز آف ڈبیٹس کہلایا جا سکتا تھا یعنی پارلیمنٹ میں ہونے والا مکالمہ۔ اور نہیں بھولنا چاہئے کہ متحدہ ہندوستان میں 1884ء سے شروع ہونے والا یہ مکالمہ جب بیسویں صدی کی پچاس ،ساٹھ اور ستر کی دہائی کے اسلامی جمہوریہ پاکستان پہنچا تو اس مکالمے کے کئی ابواب پاکستان کی سڑکوں پر پاکستان کی عوام نے اپنے خون سے لکھوائے اور ریاست نے لکھے ۔ اس قدر طویل اور خون آشام مکالمے میں رہ کیا گیا ہے جس پر مزید کسی مکالمے کی ضرورت باقی ہو ؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ آج کی تاریخ میں یہ آپ کے لئے مکالمے کا نہیں بلکہ مطاعمے یعنی روزی روٹی کا ایشو ہے ؟ ختم نبوت اور عشق رسالت ہماری دینی روایت میں شرعی اعتبار سے علم کا اور تصوف کی نسبت سے عشق کا موضوع ہے ۔ تصوف سے آپ کو قدرت نے لمس نہیں بخشا اور علم کا آپ کے ہاں یہ حال ہے کہ آپ کی عقلی حدود کا خاتمہ ہوجائے تو قرآنی آیات کو بھی اس محدود عقل کے تابع کرنے سے نہیں جھجکتے ۔ “درست تشریح” کے نام سے مداہنت آپ کی پہچان بن چکی۔ کسی معتبر علمی ہستی کو چھوڑیئے صرف غامدی صاحب کو ہی چھیڑ دیا جائے تو آپ کی ساری غیرتیں کسی ایٹمی پاور پلانٹ سے چارج ہو کر بیدار ہوجاتی ہیں۔ کسی نامور لبرل مفکر کو چھوڑیئے فقط وجاہت مسعود صاحب پر ایک جملہ تبصرہ کردیا جائے تو آپ ڈائیننگ ٹیبل پر چھری کانٹا چھوڑ کر کمپیوٹر ٹیبل پر آ کر کیبورڈ سنبھال لیتے ہیں۔ ایسی بیتابی اور ایسی غیرت آپ کو ختم نبوت کے مسئلے پر بھی ہوتی تو ہم مان لیتے کہ مسئلہ مطاعمے کا نہیں مکالمے کا ہے ۔ مگر سلام ہے آپ کے اس ذوق مکالمہ کو جس نے قسم کھا رکھی ہے کہ جب بھی بھڑکنا ہے تو کسی ایسے ایشو پر ہی بڑھکنا ہے جو اچھے مطاعمے کا امکان رکھتا ہو۔ ختم نبوت کا مسئلہ تمہارے لئے روزی روٹی کا ایشو ہوگا۔ ہمارے لئے تو یہ دھڑکتے دل، برستی آنکھ، رکتی سانس کا نغمہ ہے ۔ اس پر مزید کسی مکالمے کا شوق یہ سوچ کر دل میں لایئے گا کہ اب یہ مکالمہ یا ہمارے خون سے لکھا جائے گا یا پھر آپ کے ۔ ہم تو ختم نبوت کے لئے جان دینے کو ہر لمحہ تیار ہیں، سوچنا آپ کو ہے کہ روٹی کے لئے مرنا ہے یا جینا ہے ؟ پیمرا نے حمزہ علی عباسی کو بھی بین کیا اور علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی کو بھی۔ حمزہ علی عباسی پر پاکستان کی عوام نے لعنتیں بھیج کر جبکہ علامہ اوکاڑوی کو سلام عقیدت پیش کرکے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ ختم نبوت کی نسبت سے حمزہ علی عباسی بنوگے تو لعنتی قرار پاؤگے اور علامہ اوکاڑوی بنوگے تو دیوبندیت کا بھی سلام عقیدت ملے گا۔ اور یہ مکالمہ ہے نہ مطاعمہ بلکہ پاکستانی عوام کا فیصلہ ہے اور جب فیصلے ہوجائیں تو مکالمے سمیٹ لئے جاتے ہیں اور وکیل گھروں کی راہ لیتے ہیں۔ آپ بھی گھر جایئے !

مریض کی عیادت اور تسلی و ہمدردی

حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی مریض کے پاس جاؤ تو اس کی عمر کے بارے میں اس کے دل کو خوش کرو (یعنی اس کی عمر اور زندگی کے بارے میں خوش کن اور اطمینان بخش باتیں کرو۔ مثلاً یہ تمہاری حالت بہتر ہے، انشاء اﷲ تم جلد ہی تندرست ہو جاؤ گے) اس طرح کی باتیں کسی ہونے والی چیزکو روک تو نہ سکیں گی (جو ہونے والا ہے وہی ہوگا) لیکن اس سے اس کا دل خوش ہوگا (اور یہی عیادت کا مقصد ہے)۔ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)

 

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Time limit is exhausted. Please reload the CAPTCHA.